Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

اُردو کا پُر وقار خدمت گار

رؤف خوشتر
موظف پرنسپا  ل سرکاری کالج، بیجاپور
جس طرح شولا پورکا باشندہ شہر کی مصروف ترین گزرگاہ سات رستے کو نہیں بھول پاتااسی طرح میں بھی عزیزالقدر وقار احمد سے اپنے سات رشتے کو کیسے نہ یاد رکھوں۔ حالانکہ پروفیسر حضرات کو غائب دماغ کہا جاتا ہے۔آپ کی پُر معلومات کے ذخیرہ میں مزید اضافہ کے لیے ان رشتوں کی وضاحت کرتا چلوں۔ بہتر ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ گنتے چلیں۔ رشتہ اول میرے ماموں عبد الوہاب منڈے واڑی (وکیل) موصوف کے خالو ہوتے ہیں۔دوئم ان کے چچا زاد بھائی عبد القادر شیخ میرے خالو کہلاتے ہیں۔سوئم میرے خالہ زاد بھائی او ربہنوئی انور حُسین کمشنر خوش قسمتی سے ان کے ہم جماعت رہ چکے ہیں۔ چہارم وقار صاحب کے سچ مچ کے اچھے پڑوسی پروفیسر ڈاکٹر الیاس احمد پٹیل میرے خالہ زاد بھائی ہیں۔ پنچم میرے بڑے داماد خالد ظفر شیخ (حال مقیم دوبئی) ان کے حقیقی خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ ششم عزیزم وقار احمد کے ہم زلف (عمر کے لحاظ سے اب کم زلف)کرجگی نہ صرف میرے ہم وطن (بیجاپور) ہیں بلکہ حسن اتفاق سے میرے ہم محلہ بھی ہیں اور جناب ہفتم رشتہ جو میرے لیے مقدم معتبر اور معزز ہے وہ یہ کہ بقول کنہیا لال کپور ہم دونوں برج بانو کے اسیر مداح اور خدمت گار ہیں۔
ٍ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وقاراحمد سود و زیاں کے کاروبار یعنی بینک ملازمت میں دن بھر مشغول و منہمک رہتے ہویے بھی شام ہونے تک کیسے اپنے آپ کو نفع سے زیاں کے کاروبار میں کامیابی سے ڈھال لیتے ہیںاور بینک کے عملہ سے زیادہ وہ شاعروں اور ادیبوں کے بیچ اپنے آپ کو زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے ‘چونکئے نہیں اُردو کا معاملہ اب زیاں کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے ۔اس لیے ہر کوئی اس وادئی پر خار میں قدم رکھنے کو ڈرتا ہے مگر داد دیجئے موصوف کو کہ وہ دن بھر بینک میں گلابی گلابی نوٹوں سے کھیلتے ہویے شب کو اپنی نوٹ آشنا انگلیوں میں اُردو کی کتاب تھما کر مشغول مطالعہ رہتے تھے۔جب کہ اکثر اساتذہ بُک نہیں چیک بُک تھامے رہتے ہیں۔
میں جب بھی شولا پور آتا ہوں اوراکثر آتا ہوں اس لیے کہ شولا پور میرے لیے ناناشہر جاناں وطنِ نانی ا ور وطنِ ثانی ہے تو میں وقت نکال کر عزیزم وقار احمد سے ملتا ہوں تو مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں بینک کے سابق افسر سے مل رہا ہوں بلکہ مسرت ہوتی ہے کہ اردو کے ایک خاموش خدمت گار سے ملاقات کر کے 

فیض یاب ہو رہا ہوں۔اُن کی اُردو زباں کے تئیں حقیقی محبت اور اس سے زیادہ حقیقی 

خدمت ہم جیسے اُردو پروفیسروں کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔جن کی یافت ہی نہیں بلکہ تدریسی دریافت بھی کئی صفروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔انھوں نے مجھے بحیثیت رکن مہاراشٹر اُردو اکیڈمی اکل کوٹ کے ایک سمینار میں مدعو کیا تھا۔ ان کے ہمراہ کار میں اکل کوٹ کا خوشگوار سفر درپیش آیا تھا۔دورانِ سفر اُردو ادیبوں اور شاعروں سے متعلق ان کی وسیع معلومات سے میں خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا تھا۔ہونٹوں میں تبسم اور دھیمی انداز میں بات کرنے کا چلن سب کو متاثر کرتا ہے ۔ سب کو لے کر کام کرنے کا جذبہ اُن میں بدرجۂ اتم پایاجاتا ہے۔اس لیے اُن کی سرکردگی میں اُردو کی ہر تقریب کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اردو زبان کی خدمت کرتے رہیں گے تاکہ انھیں پُر عزم دیکھ کر ہم سب میںبھی اردو نوازی کا جذبہ جاگے اور اُردو سے غفلت کا خیال بھاگے۔شولا پور میں ان کی اُردو خدمات گراں قدر ہیں جو لائق تحسین ہی نہیں لائق تقلید بھی ہے۔
فی زمانہ تھوڑی بھی اردو کی خدمت بڑی خدمت ہی کہلائے گی ۔اور وقار احمد شیخ کی اُردو خدمت بڑی خدمت ہی ہے۔
پانی کو ترستی ہوئی فصلوں سے یہ پوچھو۔بارش کی ہر ایک بوند گُہر ہے کہ نہیں ہے٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages