Breaking

Post Top Ad

Saturday, September 29, 2018

ہمارے نام نہاد سماجی ٹھیکیدار کیا کر رہے ہیں؟ایک طائرانہ نظر

قاضی مشتاق احمد
B/6,RAY.VENUE SOCITEY
I.C.S.Colony,Pune-411007(M.S)



سنگھ (آر ایس ایس)کے ترجمان ارگنائزر کے مدیر پرفُل کینکر نے وجئے دشمی کے موقع پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر کے حوالہ سے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ آر ایس ایس سماج میں تبدیلی لانے کے عمل کی تیاری مکمل کر چکا ہے۔آسان زبان میں اس کا مطلب ہے کہ زعفرانی ایجنڈے کے مطابق تعلیم‘ تاریخ و تہذیب اور سیاست و پالیسی سازی جیسے کلیدی شعبوں پر اثر انداز ہونے کی منصوبہ بند کوشش کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ۔آر ایس ایس نے حکمرانی میں اپنے رول کو واضح کرتے ہوئے’’راست مداخلت کار‘‘کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اسی لئے حکومت کو اہم فیصلے لینے سے پہلے ’’سنگھ ہیڈ کوارٹر‘‘پر جا کر ’’ماتھا ٹیکنا‘‘ضروری ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی1000-500روپے کے نوٹوں کی منسوخی کا اعلان کرنے سے پہلے ناگپور جا کر موہن بھاگوت سے ’’چائے پر چرچا‘‘بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی ’’سنگھ پرمکھ‘‘سے گفتگو۔‘ وزیر داخلہ کا ’’اچانک ناگپور دورہ‘‘اس کی چند ادنیٰ مثالیں ہیں۔ ادبی و تہذیبی تقاریب سے سیمیناروں اور مباحث کے انعقاد کے ذریعہ سنگھ سے الحاق رکھنے والی تنظیمیں نہایت منظم طریقے سے زعفرانی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ اس عمل کو ’’دانشورانہ نظام باز گشت‘‘(Intellectual  ecosy stim)کا نام دیا گیا ہے۔
آر ایس ایس کی توجہ کا ایک اہم شعبہ تعلیم ہے۔سنگھ سے ملحقہ ادارہ ’’بھارتیہ شکشا منڈل‘‘نے پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک نصاب کو ’’بھارت کی علمی روایت‘‘سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کئی تبدیلیوں کی تجویزیں پیش کی ہیں جنھیں حکومت نے قبول کر لیا ہے۔ تحقیقات کو حسب منشا رُخ دینے کے لئے اس تنظیم نے حال ہی میں پی ایچ ڈی گائیڈس کے لئے 26؍یونیورسٹیوں میں ورک شاپ منعقد کئے اور 55؍وائس چانسلر کو ’’تحقیق برائے نشاۃ ثانیہ‘‘کے موضوع پر ایک کانفرنس کے لئے ناگپور مدعو کیا۔ (اور ہم اردو والے ان سازشوں سے بے خبر ’’اردو داستانوں میں ہندوستانی اساطیر‘‘۔’’اردو میں غزل کا مستقبل‘‘،’’اردو ادب میں جاسوسی ناول کی ضرورت‘‘،فلاں شاعر کی شاعری پر ایک نظر‘‘موضوعات پر ’’سرکاری خرچ ‘‘سے مذاکرے اور سیمینار منعقد کرنے میں مشغول رہے)
ایک دوسری زعفرانی تنظیم’’بھاشا سرکشا منچ‘‘کے تحت ہندی اور علاقائی زبانوں کے فروغ کے لئے عدالتوں ‘قانون سازوں اور پروفیشنل کالجوں کی کار گزاری میں دخل اندازی شروع کردی ہے۔ (حکومت ہند کے ایک ادارہ’’ہندی ڈائراکٹریٹ کے زیر اہتمام (ہندی زبان کے فروغ کے لئے)غیر ہندی علاقہ کے ہندی ادباء و شعراء کو ان کی بہترین تخلیقات پر ہر سال ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جاتا ہے۔یہ ایک حسین اتفاق ہے کہ یہ انعام تواتر سے اردو کے تین افسانہ نگاروں کو (ایم مبین‘راقم الحروف اور ساجد رشید)کو ملا۔غیر اردو طبقہ میں تو اس کی پذیرائی ہوئی لیکن اردو کے چند نا عاقبت اندیشوں نے اس انعام کو (جس کا فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کرتی ہے)طنز کا نشانہ بنایا کہ اردو والوں نے یہ انعامات قبول ہی کیوں کئے۔ (ایک صاحب جنھیں لفظ’’طنز‘‘کے ہجّے معلوم نہیں وہ ’’طنز‘‘کو ’’تنز‘‘لکھتے ہیں مجھے ایک خط میں ’’اردو ادیب‘‘کی بجائے ’’ہندی لیکھک‘‘لکھ کر میرا مذاق اڑایا جب کہ وہ یہ جانتے ہوں گے کہ میری چالیس سے زائد کتابیں اردو میں آچکی ہیں اور ہندی میں صرف تین۔ان میں سے ایک پر قومی ایوارڈ اور دوسری کتاب پر ۳۵؍ ہزار ’’منشی پریم چند ایوارڈ‘‘ریاستی ہندی اکاڈمی نے تفویض کیا)۔کیا ہندی رسم الخط میں افسانے لکھنا کوئی جرم ہے؟جب کہ اردو کے درجنوں ادباء و شعراء پریم چند‘راہی معصوم رضا‘ سردار جعفری‘رویندر ناتھ اشک وغیرہ نے ہندی میں لکھے تھے۔(راقم نے تو ہندوستانی پرچار سبھا سے ’’قابل‘‘کی سند اپنے زمانۂ طالب علمی میں ہی حاصل کرلی تھی)جب بھی کسی اردو والے کو کوئی قابل ذکر ایوارڈ ملتا ہے تو پتہ نہیں کیوں اردو ادب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کادل جل کر کباب ہو جاتا ہے۔ جب سردار جعفری کو ’’گیان پیٹھ‘‘ملا تو ان پر یہ تنقید ہوئی کہ انھوں نے اٹل بہاری واجپائی کے سامنے سر جھکا کر ایوارڈ لیا۔ عینی آپا کو ایوارڈ ملا تو بعض دل جلوں نے لکھا کہ وہ ’’اینگلو انڈین اردو ‘‘میں لکھتی ہیں۔شہریار کو ایوارڈ ملا تو کسی نے کہا’’ان کی شاعری میں امراؤ جان کے مجرے کے علاوہ اور کیا ہے‘‘۔ظاہر ہے کہ یہ باتیں انعام دینے والوں تک بھی پہنچتی ہیں۔(بلکہ ہمارے چند پیشہ ور قلم کار اس خدمت پر معمور کئے گئے ہیں) یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایم مبین کے زمانے میں انعام کی رقم 50؍ ہزار تھی جو اٹل بہاری واجپائی کے ایما پرا یک لاکھ کر دی گئی۔ (اب آپ اس میں بھی کیڑے نکالیں تو کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟)اور ایک بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ایم مبین کو یہ انعام وزیر اعظم کے دست مبارک سے دیا گیااور اس کے بعد کے انعام یافتگان (راقم الحروف اور مرحوم ساجد رشید) کو انعام کی رقم ڈرافٹ کی صورت میں بھجوادی گئی۔ (کوئی تقریب نہیں ہوئی)۔پونے میں سید آصف نامی ایک شاعر اور ڈراما نگار نے مہاراشٹر میں ہندی ‘ اردو‘ مراٹھی‘ گجراتی اور اور دیگر علاقائی زبانوں کے قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے ’’اُردو ساہیتہ پریشد‘‘نامی ایک تنظیم بنائی۔اس کے تحت تین اجلاس(پونے‘یمپمری چنچوڈ اور بیر) میں عظیم الشان پیمانے پر
ہوئے۔علاقائی پریس نے اس کوشش کو خوب سراہا لیکن ایک اردو والے کے پیٹ میں مروڑ اٹھی اور اس نے زہر اُگلا کہ’’یمپری چنچوڈ اجلاس میں اردو زبان کے اشعار ہندی رسم الخط میں لکھے تھے۔‘‘(اجلاس ایک غیر اردو علاقہ میں ہو رہا تھا اور اس کے اہتمام میں غیر اردو داں منتظمین نے تین لاکھ سے زائد کی رقم خرچ کی تھی۔ مہمانوں کے قیام و طعام کا بہترین انتظام کیا تھا)جب منتظمین اس قسم کی بے جا تنقید کو سنیں گے تو انھیں اردو والے نام نہاد ٹھیکیداروں کی ذہنیت کا پتہ کیسے نہیں چلے گا؟ (نتیجہ یہ کہ اس کے بعد کسی نے عظیم الشان پیمانہ پر اس قسم کا اجلاس منعقد کرنے کی ہمت نہیں دکھائی ۔اب ایک اچھے مقصد کے لئے قائم کی گئی انجمن ٹھنڈے بستہ میں چلی گئی)اس کے تحت چھوٹی موٹی محفلیں ضرور ہوتی ہیں۔سید آصف نے غیراردوداں شائقین ادب کو اردو زبان اور شاعری سکھانے کے لئے چھوٹے پیمانہ پر کام شروع کیا ہے۔(ہندی زبان میں ’’عروض آصفیہ ‘‘نام کا ایک کتابچہ بھی شائع کیا ہے)اردو والوں کو اس قسم کی تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں۔اردو کا ایک بڑا طبقہ نہ تو زبان وادب کے لئے کچھ کرتا ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دیتا ہے جس طرح’’بھاشا سرکشا منچ‘‘ہندی زبان کی ترقی و بقا کے لئے کام کر رہا ہے اور عدالتی نظام میں’’ہندی‘‘کو متعارف کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ایسا اردو کے لئے کون کر رہا ہے؟کتنے اردو والوں کو معلوم ہے کہ اردو کے اولین ناول نگا رڈپٹی نذیر احمد نے ۱۸۶۰ء؁ میں انڈین پینل کوڈ کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ۔ غالبؔ نے اپنی زندگی کے بیس برس مقدمہ بازی(پنشن ‘قرض کی ادائیگی‘قمار بازی)میں گنوا دئے ۔ان کا مشہور شعر ہے:
پھر کُھلا ہے درِ عدالتِ ناز۔گرم بازار فوجداری ہے
حال ہی میں دلّی کے عدالتی نظام سے اردو کی اصطلاحات خارج کرنے کی بات چلی تھی۔اردو والے حسب ِعادت’’تیری بھی چُپ میری بھی چُپ‘‘ کے اصول پر قائم رہے۔محکمہ ٔ پولیس نے البتہ اس تجویز کی کھل کر مخالفت کی کہ اردو اصطلاحات زبان زد عام ہیں انھیں خارج کردینا صحیح نہیں ہے۔ اردو والے اس معاملے میں چُپ کیوں رہے؟
کیا ’’یوم ِاردو‘‘کے موقع پر اس مسئلہ کو مناسب طریقے سے اُٹھایا نہیں جا سکتا تھا؟بعض کالجوں میں ’’یومِ اردو‘‘کا انعقاد ضرور ہوا لیکن اس کا مقصد محض ’’خانہ پری‘‘سے زیادہ نہیں تھا۔ ہاں ! اردو کے نام پر پلاؤ کھانے کے لئے احباب کو ضرور بلایا گیا اور بعض’’پیشہ ور مقررین اور مقالہ خواں حضرات ‘‘نے ’’مرتی ہوئی زبان‘‘ کے نام پر فاتحہ پڑھ کر گھڑیالی آنسو ضرور بہائے۔ ہماری نمائشی اردو ہمدرد انجمنیں چندہ جمع کر کے بزمِ قوالی ‘فلمی گانوں کے پروگرام برپا کرنے میں مصروف رہیں ۔بلکہ اردو معاشرہ میں سناٹا ہی رہا۔ (جاری)

 (بشکریہ ادبی محاذ ۲۰۱۷


http://adbimahaz.blogspot.com/

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages