Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

دل کا شاعر غلام سرور ہاشمی

            دل کا شاعر غلام سرور ہاشمی
منیر سیفی 
سمن پورہ،پٹنہ۔۱۴
موبائل۔



رِگ وید کے ۳؍ حصے ہیں۔جکوبی نے پہلے حصے کو ۴۵۰۰ق م کی تخلیق کہا ہے۔ میکس مولر نے پہلے حصے کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اس پہلے حصے کو چھند کا دور کہا ہے کہ اس میں شاعرانہ انداز زیادہ نمایاں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔
سید ظفر ہاشمی مدیر گلبن نے مئی۔جون ۲۰۱۶ء کے اداریہ’’بھائی کس کے پاس پڑھنے کا ٹائم کہاں ہے‘‘میں سوال اُٹھایا ہے کہ ’’یہ ۸۰؍ کا معنی کیا ہے؟کوئی بتا ئے لیکن کسی نے بھی اب تک نہیں بتایا کہ ۸۰؍ کٹ آؤٹ ڈیت کی معنویت اور اہمیت کیا ہے اور یہ اصطلاح کیوں رائج ہوئی کہ ہر ہمہ شما جو افسانوں(میں یہاں شاعری بھی جوڑنا چاہوں گا۔منیر) کی بات کرتا ہے اس منتر کاجاپ ضرور کرتا ہے اور اکیسویں صدی میں باکس آفس ہٹ کرنے والے افسانہ نگار اور تجربات کی روپہلی سنہری اور اودی بھٹیوں سے طرح طرح کی اصناف نکالنے والے فن کار اپنی چھوٹی موٹی اینچا تانی تخلیقات گن سکتے ہیں گنا بھی سکتے ہیں‘ اسے زندہ جاوید نہیں کرسکتے۔ اس کی مثال صابن کی اس بلبلے کی سی ہے جسے چھوٹے بچے نلکیوں سے پھونک کر ہوا میں اُڑاتے ہیں انھیں گنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ۔پھر نلکی پھینک کر دوسرے کھیل کھیلنے لگتے ہیں اور بلبلوں کو جو نلکی سے نکلتے ہی پھوٹ چکے ہوتے ہیں انھیں بھول جاتے ہیں‘‘۔ 
اس تمہید کے ساتھ میں ایک بالکل نوجوان تازہ کار شاعر کا تعارف کرادوں۔ غلام سرور ہاشمی (۸؍جون ۱۹۸۳ء)بہار کے ضلع گوپال گنج میں عالم وجود میں آئے۔انگریزی اور اردو میں ایم اے ہیں۔بی ایڈ اور سنگیت میں ڈپلوما کیا اور درس و تدریس جیسے شاہانہ کام سے جُڑ گئے۔ ہاشمی صاحب بچوں کو انگریزی اور اردو کی مفت تعلیم بھی دیتے ہیں جو ایک بڑا اور اہم کام ہے۔ تادمِ تحریر موصوف کی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ یہاں میں ان کے چند اشعار کے تعلق سے بات کرنا چاہوں گا۔ 
تمھارے بن مجھے شام و سحر اب
کسی پہلو سکون دل نہیں ہے
اس کا چہرہ ابھرنے لگتا ہے
دل کو جب آئینہ بناتا ہوں

دل سے تم آواز دو آجاؤں گا
میں کسی کا دل دُکھا سکتا نہیں
دیکھنے کی دل میں خواہش ہے مجھے اس تاج کی
کون جانے کب مقدر آگرہ لے جائے گا
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ غلام سرور ہاشمی جمالیات کے شاعر ہیں اور جمالیات کا تصور حساس دل کے بغیر ممکن نہیںہے۔ ہاشمی دل کی بات مانتے ہیں اس لئے ان کے یہاں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔جو دل پر گزرتی ہے اسے من وعن قرطاس پر اُتار دیتے ہیں۔ اگر دل بے حس ہو جائے تو نظام نظم عالم درہم وبرہم ہو جائے ۔یہ دل ہی کی وسعت ہے جس کے گوشے میں غموں کے سمندروں کی سمائی ہو جاتی ہے۔
بلا کی موج نے گھیرا ہے مجھ کو۔مری قسمت میں کیا ساحل نہیں ہے
مشکلوں اور مصیبتوں کے بعد جب ساحل ملتا ہے تو اس کی لذت کچھ اور ہی ہوتی ہے جسے الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے ۔ویسے بھی ہاشمی جیسے نوجوان شاعر کو جگر کے شعر کے مصداق موج بلا کو موج انبساط میں ڈھال دینا چاہئے:
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
ہاشمی مستقبل میں مشاعرہ باز شاعروں کی نقالی ‘جگالی اور اینچا تانی تخلیق سے اجتناب کریں تو یقیناً شہرت ان کے قدم چومے گی۔ میرامشورہ ہے کہ اساتذہ نیز معتبر شعراء شکیب جلالی‘ناصر کاظمی‘ سلیمان اریب ‘‘کلیم عاجز‘ ندا فاضلی‘ کمار دشینت کو پڑھیں اور انگریزی ادب کا بھی مطالعہ کریں تو تابناک مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ان کے ہاں فرسودگی نہیں ہے اور نئے امکانات عکس ریز ہیں ۔ان کی شاعری نلکیوں سے نکلے ہوئے بلبلے نہیں ہیںجو ہواؤں کے رابطے میں آتے ہی پھوٹ جاتے ہیں بلکہ ان کی شاعری کا چراغ ان شا ء اللہ طوفانوں میں بھی روشن رہے گا۔(آمین)۔انھیں کے ایک شعر کا حوالہ دے کر اپنی با ت ختم کرنا چاہوں گا۔
جو مشہور کردے مجھے اس جہاں میں 
میں اپنے لئے وہ ہنر چاہتا ہوں 
٭٭٭


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages