Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

آزاد نظم

نظم

خلش

میں اک خلش کا کانٹا ہوں
تیرے دل میں کھٹکتا ہوں
جو تم مجھ کو نکالوگے
تو ہوں گی انگلیاں زخمی
گر، رہنے دیتے ہو
لہو روتا رہیگا دل
پھر پونچھیں گی
انگلیاں آنکھیں
وہی آنکھیں
کہ جن کے ملنے سے
کبھی دھڑکا تھا دل میرا
میری دھڑکن بنی نہ سانس
تیرے کبھی جی کی
ضرورت کھیل کی تھی بس
نہ دل تھا نہ روح تھی ساتھ
گر تیرے چلے جانے سے
کچھ بھی فرق پڑتا تو
نہ میں جیتی، نہ یوں لڑتی
کبھی میں زندگی کی جنگ
مگر
سچ کہنا
ترے دل میں
خلش کی جو چبھن سی ہے
وہ اک احساس شرمندہ
وہ اک خاموش پچھتاوا
وہ کانٹا کیسے نکلے گا
مہر افروز
دھارواڑ
کرناٹک
28.09.2018

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages