نظم
خلش
میں اک خلش کا کانٹا ہوں
تیرے دل میں کھٹکتا ہوں
جو تم مجھ کو نکالوگے
تو ہوں گی انگلیاں زخمی
گر، رہنے دیتے ہو
لہو روتا رہیگا دل
پھر پونچھیں گی
انگلیاں آنکھیں
وہی آنکھیں
کہ جن کے ملنے سے
کبھی دھڑکا تھا دل میرا
میری دھڑکن بنی نہ سانس
تیرے کبھی جی کی
ضرورت کھیل کی تھی بس
نہ دل تھا نہ روح تھی ساتھ
گر تیرے چلے جانے سے
کچھ بھی فرق پڑتا تو
نہ میں جیتی، نہ یوں لڑتی
کبھی میں زندگی کی جنگ
مگر
سچ کہنا
ترے دل میں
خلش کی جو چبھن سی ہے
وہ اک احساس شرمندہ
وہ اک خاموش پچھتاوا
وہ کانٹا کیسے نکلے گا
مہر افروز
دھارواڑ
کرناٹک
28.09.2018
No comments:
Post a Comment