Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

کسے اور کیوں؟؟(ابتدائی خیال مُستعار لیا گیا ہے)

کسے اور کیوں؟؟(ابتدائی خیال مُستعار لیا گیا ہے)
ایڈوکیٹ حبیب ریتھ پوری
ریتھ پور ،ضلع امراؤتی۔ ۴۴۴۷۰۴(مہاراشٹر)

چار تعلیم یافتہ افراد ایک کشتی میں سوارہو کر دریا عبور کر رہے تھے ۔ملاح اپنی پہاڑی آواز میں ایک سمندری گیت الاپ رہا تھا۔ ساتھ ہی چپّو چلاتا جا رہا تھا۔اس گیت کی لے پر اس کی کشتی آگے بڑھ رہی تھی اور اس کی مشقت کا احساس کم کر رہی تھی۔ان چاروں میں سے ایک نے سوال کیا۔۔۔۔؟
’’کیا تم نے تعلیم حاصل کی ہے۔۔۔۔۔؟‘‘ ملاح کا جواب تھا نہیں۔۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔۔بچپن ہی سے باپ کے ساتھ کشتی میں سوار مسافروں کو دریا کے اِس پار سے اُس پار اور اُس پار سے اِس پار اتارتا رہا ہوں ۔اس لئے تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔
ارے تم نے تو اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی۔۔۔۔۔
پھر تم اتنا خوبصورت گیت کیسے گاتے ہو۔۔۔۔۔۔؟
دوسرے نے سوال کیا۔۔۔۔
یہ گیت تو ہم سبھی ملاح کو اپنے باپ داداؤں سے سن کرہی یاد ہو جاتا ہے۔اسے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
تمھیں اس کے علاوہ بھی اور کچھ آتا ہے۔۔۔۔۔؟
’’ہاں۔۔۔۔چپو چلانا۔۔۔۔۔گیت گانا‘ہوا کا رُخ پہچاننا‘موسم کے حالات کو سمجھنا‘طوفان اور مصیبت کے وقت حواس کو قابو میں رکھ کر پوری ہمت اور پا مردی سے مقابلہ کرنا۔کشتی میںسوار مسافروں کے جان و مال کی حفاظت کر نا۔۔۔۔کیا مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا جاتا ہے ؟ارے یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔۔!؟
تیسرے نے کہا۔
ہمیں دیکھو۔۔۔۔۔۔!یہ ڈاکٹر ہیں۔۔۔۔میں وکیل ہوں۔۔۔۔۔یہ انجینئر ہیں۔۔۔۔یہ ادیب ہیں ۔ ہم نے برسوں مدرسوں کالجوں میں تعلیم حاصل کی ہیں۔۔۔۔تب آج یہ سب علم و ہنر سیکھ پائے ہیں۔اپنی زندگی کو کامیاب بنا پائے ہیں اور تم نے تو آدھی زندگی برباد کر دی۔ 
اسی وقت آسمان میں کالے کالے گھنے بادل گھر آئے ‘تیز ہوائیں چلنے لگیں۔۔۔۔دریا میں زبردست اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں۔موٹی موٹی بوندوں کا مینھ شروع ہو گیا ۔تیز ہوا اور اونچی لہروں کے تھپیڑوں سے کشتی ڈولنے لگی۔۔۔۔۔دریا میں طوفان آگیا۔۔۔۔ملاح اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کر کے کشتی کو کھیتا رہا۔ کیونکہ مسافروں کے جان و مال کی حفاظت اس کا فرض تھا ۔اور وہ اپنا فرض خوب جانتا تھا۔ 
اخیر میں جب طوفان کا زور بہت بڑھ گیا‘ملاح کے لئے کشتی کو کھینا 

مشکل ہو گیا تو اس نے مسافر سے کہا ۔۔۔۔کیا آپ لوگوں کو تیرنا آتا ہے۔۔۔۔؟
چاروں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔۔۔’’نہیں ہمیں تیرنا نہیں آتا‘‘۔
تب تو آپ نے اپنی پوری زندگی برباد کر دی ۔۔۔۔کیونکہ کشتی میں بوجھ زیادہ ہو گیا ہے‘ کشتی ڈوبنے کے قریب ہے‘ مجھے تیرنا آتا ہے میں تو تیر کر کنارے پہنچ جاؤں گا اور ساتھ صرف ایک شخص کو اپنے ساتھ کنارے تک لے جا سکوں گا۔اب آپ بتائیے ۔۔۔۔کہ! میں کس کو اپنے ساتھ کنارے تک لے جاؤں۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔؟ 
میں وکیل ہوں پیچیدہ سے پیچیدہ مقدمات کو میں اپنی علمی لیاقت اور مدلّل جرح کے ذریعہ سلجھا کر فیصلے اور انصاف کو اپنے موکل کے حق میں کھینچ لاتا ہوں۔ کتنے ہی ملزموں کو جیل جانے ‘بھاری جرمانہ ادا کرنے حتیٰ کہ پھانسی کے پھندے سے چھڑا لایا ہوں۔۔۔۔۔اس لئے مجھے بچایا جائے ‘میں زندگی میں کبھی تمھارے بھی کام آسکتا ہوں۔
ملاح نے وکیل صاحب کی باتوں کو پورے صبر و سکون سے سنااور پھر کہنے لگا :۔وکیل صاحب میں ایک سیدھا سادہ ملاح‘ مجھے کورٹ کچہری اور عدالت سے کیا کام۔۔۔۔۔؟میں نے کبھی قانون نہیں توڑا‘ کسی کا حق نہیں چھینا۔نمبر دو کا کوئی کام نہیں کیا۔کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ۔مار پیٹ تو کیا گالی بھی نہیں دی۔ہمیشہ قانون کا احترام کیا۔۔۔۔اور آئندہ بھی انھیں اصولوں کے مطا بق زندگی 
گزاروں گا اس لئے آئندہ بھی مجھے آپ کی کسی امداد کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔
اب ڈاکٹر صاحب آگے بڑھ کر کہنے لگے ۔۔۔۔:میں ڈاکٹر ہوں!مشکل سے مشکل امراض اور بیماریوں کا علاج جانتا ہوں ‘بڑے بڑے آپریشن کر چکا ہوں‘کئی مریضوں کی جانیں بچا چکا ہوں‘معمولی سردی بخار سے لے کر مشکل آپریشن تک میں علاج کرتا ہوں۔۔۔۔شاید کل تمھیں میری ضرورت محسوس ہو‘اس لئے مجھے بچایا جائے۔
ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر ملاح ایک لمحہ کے لئے خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا۔
ڈاکٹر صاحب ہم دریاؤں کو اپنے زورِ بازو سے عبور کرنے والے چپو چلانے کی سخت جسمانی محنت کرنے والے ‘کسی بھی موسم میں اپنے کاموں کو انجام دینے والے صاف کھلی ہوا میں سانس لے کر جینے والے ‘ہمیں سردی بخار توچھو بھی نہیں سکتا اور عیش و آرام میں زندگی گزارنے والے عیش پسند لوگوں کی بیماریاں تو ہمارے قریب بھی نہیں پھٹکتیں اور بڑے بڑے آپریشن کروانے کے لئے ہمارے پاس دولت بھی کہاں ہے‘ہم تو فطری زندگی جیتے ہیں اور فطری موت مر جاتے ہیں۔آئندہ زندگی میں مجھے آپ کی ضرورت شاید ہی محسوس ہو۔
اب انجینئر صاحب نے اپنی لن ترانی شروع کی ۔دنیا کی خوبصورتی میرے دم سے ہے۔تاریخی عمارتیں بڑے بڑے پل‘ڈیم‘کارخانے‘ خوبصورت بلڈنگیں یہ سب میری علمی قابلیت سے بنائے گئے ہیں ۔آرام دہ مکانات ‘باغات‘ عالیشان ہوٹلیں‘ ہوائی اڈے‘ پلیٹ فارم‘ بندرگاہیں وغیرہ کی تعمیر میں میرا بڑا حصہ ہے۔۔۔۔اس لئے مجھے زندہ رکھنا ضروری ہے۔
ملاح نے انجینئر صاحب کی بات بھی سنجیدگی سے سنی اور پھر کہنے لگا۔ 
ہاں یہ سب سچ ہے‘مگر دریا کے کنارے ناریل کے تنوں اور پتوں سے اپنی جھونپڑی بنا نے والے ملاح کو ان تعمیرات سے کیا غرض ۔۔۔۔۔؟یہ تو پہلے کبھی راجہ مہاراجاؤں کے کھیل تھے ۔اور اب لوٹی ہوئی دو نمبر کے دھندوں سے کمائی ہوئی کالی دولت کے دولت مندوں کا مشغلہ ہے ‘مجھے آپ سے کوئی کام ہوگا ۔۔۔۔مجھے تو نہیں لگتا ۔ہماری نسلیںانھیں جھونپڑ پٹی کی جھونپڑیوں میں پیدا ہوتیں‘پلتیں‘جوان ہوتیں پھر بوڑھی ہو کر مرجاتی ہیں۔۔۔۔کوئی بھی تو ان عمارتوں اور تعمیرات کے خواب نہیں دیکھتا۔۔۔۔شاید میں بھی نہیں۔۔۔۔۔اس لئے۔۔۔۔۔
اخیر میں ادیب(قلم کار)نے نہایت انکساری مگر اتنی ہی خود اعتمادی  سے اپنی اہمیت بیان کرنا شروع کیا۔
میں ادیب(قلم کار) ہوں ۔میں ادب کی زمین میں خیالات کے ہل چلا کر لفظوں کے بیج بوتا ہوںتاکہ ہر دور میں ادب کی زمین پر نئی نئی فصلیں لہلہاتی رہیں۔اور یہ سرسبز وشاداب زمین سبھی کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز بنی رہے۔دنیا کے تمام علوم کا ادب بھی میں ہی تخلیق کرتا ہوں۔میرا علم زندگی کے ہر شعبہ ٔحیات پر محیط ہے۔وکیلوں کو نئے نئے رجحانات اور نظریات دیتا ہوں۔ڈاکٹروں کو نئے نئے انکشافات سے ان کے کاموں میں آسانیاں پیدا کرتا ہوں۔انجینئروں کو نئے نئے خیالات سے نوازتا ہوں۔اگر میں نہ رہوں تو علم کے یہ سارے سوتے خشک ہو جائیں گے ‘علم کا سمندر سوکھ جائے گا۔کوئی نیا نظریہ ‘نیا انکشاف‘ نیا خیال جنم نہیں لے سکے گا۔اور ادب کی یہ زمین بانجھ ہو جائے گی۔
ملاحوں کی تھکن دور کرنے اور ان کی مشقت ومحنت کی تھکن کے احساس کو کم کرنے کے لئے جوشیلے گیت لکھوں گا۔ معصوم بچوں کے لئے توتلی زبان میں بولوں گا۔ ملاحوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو عوام اور حکومت تک پہنچا دوں گا۔ان کو حل کرنے کے لئے جدوجہد کروں گا۔ عوام کی خوشی‘خوش حالی اور انصاف کے لئے سینہ سپر رہوں گا۔ فوجی گیت ‘قومی ترانے ‘کسانوں اور مزدوروں کے لئے ان کی زبان میں نغمے لکھوں گا۔نئی نسلوں کے لئے ادب تخلیق کروں گا۔ اور اگر میں نہیں رہا ۔۔۔۔تو یہ سب کون کرے گا؟اس لئے میرا زندہ رہنا ضروری ہے‘مجھے بچایا جائے۔
خدا نے اپنے کلام پاک میں جس قلم کے ذریعہ علم سکھانے کا ذکر کیا ہے ‘ایسا علم جو انسان نہیں جانتا تھا۔۔۔۔اس قلم کا وارث بھی تو میں ہی ہوں قلم کار۔۔۔۔۔۔۔اس لئے ۔۔۔۔۔قلم کار کی باتیں ختم ہونے تک طوفانی موج کے ایک تھپیڑے نے کشتی کے سارے تختے بکھیر دئیے۔
ملاح ایک لمحہ کی دیر کئے بغیر قلم کار کو ایک تختے پر لٹا کر ایک ہاتھ سے تیرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے وہ تختہ کنارے کی طرف دھکیلنے لگا۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages