Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

دِلوں کے داغ چھپاؤ

اقبال سلیم
No.97,Aiwan-e-Tahera.4th Main,8th Cross
J.H.B.C.S .L ayout..J.P.Nagar  Post
Bangalore-560078


تار پڑھ کر ابا جان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا‘میں پھینک کر دوڑی،کیا ہوا اباجان۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ تار میری طرف بڑھا کر بولے ، ہوتا کیا میرا سر۔۔۔۔۔۔۔۔لو تم خود پڑھ لو۔
تار پڑھ کر میں خود بھی سن ہو کر رہ گئی،سلمان بھائی کا تار تھا،ہم لوگ آج رات کی گاڑی میں سے پہنچ رہے ہیں۔
وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا ،خدا تمھاری ماں کو جزائے خیر دے،مگر تم لوگ ایک طوفان کا سامناکرنے کوضرور تیار ہو جاؤ۔
انھوں نے گردن موڑ کر امی کی طرف دیکھا جو کچھ فاصلے پر نماز سے فارغ ہو کر آنکھیں بند کیے دعا میں مصروف تھیں، وہ ان کے قریب جا کر بولے،سنتی ہو بیگم!بنگلور سے تار آیا ہے۔دونوں صبح کے بھولے آج شام کو گھر پہنچ رہے ہیں ۔
امی کی پیشانی پر بل پڑ گئے،کون دونوں ۔۔۔۔۔؟
وہی پسر نوح سلمان اور اس کی دلہن اور کون۔۔۔۔۔!
امی بھونچکی رہ گئیں اور آمین بھول کر چٹ پٹے کی کی لکڑیاں کی طرح پھٹ پڑیں،چھری بھونک دیں گی پیٹ میں۔اگر یہاں کسی نے قدم رکھا۔میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔
گزر جائے گا ۔اباجان بات کاٹ کر چیلنج کے انداز میں بولے ۔یہ پل صراط تو ہے نہیں ۔وہ خود بھی ماشا ء اللہ ہٹا کٹا ہے اور پھر پولس میں انسپکٹر ہے۔
انسپکٹر ہو گا اپنی جورو کے ہاں کا۔یہاں دال نہیں گلے گی۔ایسے پولس والے میری جوتی کے نوک پر رہتے ہیں ۔
بہو کو ہراساں کرنے کے الزام میں حوالات میں پھنکوا دیے گا ۔معلوم!
معلوم ہے !اتنا قانون تو ہم بھی جانتے ہیں ،دیکھو کیسے پھنکواتاہے ، ویسے ہی کیا سب کی آنکھیں پھوٹ گئی ہیں ،کیا دیکھ نہیں رہے ہیں دو سال سے دُم دبائے چھپتا نہیں پھر رہا ہے، کیا کبھی گھر میں گھسنے کی ہمت کی ہے؟
مگر سنوں تو سہی،میرا کیا ہے؟ آج مرا کل دوسرادن ۔پھر کس کے در پر پڑی رہوگی ۔یہ بھی تو سوچو۔اللہ سلامت رکھے ،ابھی میرے ممیرے خلیرے زندہ ہیں، وہ کسی کے در کے بھکاری نہیں ہیں ،سر پر بٹھائیں گے ۔وہاں نہیں تو محلے
والوں کے کپڑے لتے سی کر جی لوں گی۔

یعنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناؤگی ۔اباجان مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا ۔یہ بھی تو سوچو لوگ کیا کہیں گے ۔سگے بیٹے سے سوتیلے کا سلوک ہو۔
مجھے لوگوں سے کیا لینا دینا ہے ،چاند کی طرف تھوک کر وہ خود ہی شرمائیں گے،پھر وہ بیٹا کیا جو خاندان کی نیا ڈبو کر نہ شرمائے۔ دیوانی ہوتی ہو۔ابا جان ایک لمحے کے لئے سٹپٹا گئے پھر جھنجھلا کر بولے ۔بیٹا اپنا ہی خون ہوتا ہے، سات آسمان ادھر سات سمندر ادھر جی بیٹا ،بیٹا ہی ہوتا ہے ۔کیا اسے نو ماہ اپنی کوکھ میں نہیں رکھا تھا۔ برسوں اپنا خون پلا پلا کر نہیں پالا ہے،مگر تم تو اس طرح خار کھائی کھائے بیٹھی ہو جیسے وہ تمھارا زمین میں گاڑ رکھا خزانہ لے بھاگا ہو تم نہ سہی ہر کوئی اپنی پسند خوشی اور آرزو کی تکمیل کے لئے آزاد، اور سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہو جاتا ہے ،اور پھر جوانی۔ وہ ایک لمحے کے لئے رُکے اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولے ، جوانی اندھی ہوتی ہے بیگم۔ اور تم جہاں دیدہ ہوتے ہوئے ہی بھی اپنی ضد اور جھوٹے وقار کے دباؤ پر اپنے اس مست سانڈ کو شادی روک دی تھیاور وہ فرہاد زدہ، اپنی دُھن کا پکا اس شادی پر بضد تھا۔تم اس جیالے کی ہمت کی داد دو۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اگر تم سمجھتی ہو کہ اس نے تمھارے وقار کی مٹی پلید کی ہے تو یہ تمھاری سراسر زیادتی ہے، ویسے لڑکی کوئی بھنگن یا چمار نہیں ہے۔ اپنے سگے بھائی کی بیٹی ہے اور صورت و شکل کی ماشاء اللہ۔۔۔۔۔۔!
اباجان نے رُک کر میری طرف دیکھا اور انگلی سے اپنی پیشانی ٹھونک کر بولے ، بھلا اسے کیا کہتے ہیں سلمیٰ۔
میں نے اپنی ہنسی روک کر ڈرتے ڈرتے اماں کی طرف کنکھیوں سے دیکھا اور چپکے سے جواب دیا۔چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ہوگی میری جوتی آفتاب مہتاب۔جھاڑو پھر ے ایسی چڑیل پر۔میرے بیٹے کو لے گئی۔ اور بیٹے صاحب کو کیا اسی دن کے لئے نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا تھا۔کیا اسی دن کے لئے برسوں
تک اپنی چھاتی کا دودھ پلا کر پالا تھا کہ ایک کلے چرا چوکھٹا دیکھ پھسل جائے اور اپنی نصیبوں جلی ماں کو گدھے کی طرح لات مار کر اس کے پیچھے دم دبائے نکل جائے۔
یہ کہہ کر جلدی جلدی تسبیح کے دانے ڈھلکانے لگیں ۔
بیگم!اباجان ان پر جیسے ترس کھا کر بولے۔وہ یہاں کچھ لینے نہیں وہ اپنی دودھ پلائی ماں کو دیکھنے آرہا ہے۔ اور تم ایک بے بس عورت۔ آکر تم اپنا غصہ کس پراُتاروگی بقول شخصے ’’اسے کیا کہتے ہیں سلمیٰ!
قہر درویش بر جانِ درویش،میں نے ڈرتے ڈرتے دبی زبان سے جواب دیا۔
ہاں قہر درویش برجانِ درویش۔ابا جان خوش ہو کر بولے اور امی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ تو میں خود بھی بجھے دل سے اپنے کمرے میں چلی آئی اور ایک کتاب اٹھالی، مگر دل نہ لگا۔کتاب جیسے ماضی کا البم بن گئی تھی اور الفاظ تصویوریں،کھڑکی سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے کارواں سے چلے آرہے تھے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ یادوں کے کارواں ہو ں،میرے ذہن کی بظاہر خاموش خلاؤں میں یادوں کی بارات کی شہنائی سی بجنے لگی ۔مجھے وہ دن یاد آرہے تھے جب کئی سال پہلے امی جان کی ان کے اکلوتے بھائی جمیل ماموں کی نانا جان کی جائیداد کے سلسلے میں کچھ ناچاقی ہو گئی تھی۔ امی جان کا غصہ اتنا بڑھا کہ اتنا بڑھا کہ انھوں نے قسم کھائی کہ وہ تو کیا ان کا کتا بھی ان کے گھر میں قدم نہیں رکھے گا۔نہ وہ ان کی صورت دیکھیں گی ۔اس طرح دونوں خاندان کے درمیان ایک دراڑ سی پڑ گئی ۔جمیل ماموں نے بہت چاہا کہ کسی طرح مصالحت ہو جائے مگر یہ ہٹ کہ پکی اپنی ضد پر اڑی رہیں۔اور اس مسئلے کو اپنے وقار کا سوال بنا لیا۔
ادھرسلمان بھائی اس دراڑ اور معاملے کی نزاکت سے بے نیاز اپنی ماں کے دشمن کی بیٹی کی تصویر جیب میں ڈالے اس سے چوما چاٹی کر رہے تھے۔بچپن میں اس سے شادی بیاہ کے کھیل کھیلتے ہوئے سچ مچ اپنی گڑیا سے بیاہ رچانے کے خواب دیکھنے لگے۔وہ فائنل ایم ۔اے میں تھے کہ دلرس آپا نے اسی کالج میں فرسٹ ایر سائنس میں اسی کالج میں داخلہ لیا۔دونوں کا تقریباً روز ہی آمنا سامنا ہوا۔کلاس میں تاریخ اور پولیٹکل سائنس کے درس لیتے، کلاس کے باہر آم کیء ٹھنڈے ٹھنڈے سائے تلے خاندانوں کے درمیان پڑی ہوئی دراڑ پھلانگ کر خوابوں کے تاج محل سجائے جاتے ،وعدے ہوئے قسمیں ہوئیں۔ایک دوسرے کے ساتھ جینے اور مرنے کے عہد و پیمان ہوئے۔اڑتے اڑتے ان خبروں کی سنسنی خیز سرخیاں امی کے کانوں میں بھی پڑیں تو وہ زخمی شیرنی کی طرح اپنی کچھار سے باہر نکل آئیں ۔یہ میری ناک کا سوال ہے۔ جمیل نے اپنی بیٹی کو بیچ میں ڈال کر مجھے زک دینے کی کوشش کی ہے۔ میرا بچہ ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا۔ اسے ضرور جادو ٹونے سے پھنسایا گیا ہے۔
مگر بے چاری امی جان کو کیا معلوم کہ یہ کسی دشمن کے جادو ٹونے کا کرشمہ نہیں بلکہ ہیر کے حسن کا جادو تھا۔جو رانجھے میاں کو کچے دھاگے میں باندھ کر لے گیا تھا۔بلاشبہ دلرس آپا ناک نقشے اور رنگ میں سینکڑوں کی تھیں۔سلمان بھائی نے امی جان کے بہت سارے جتن کئے مگر وہ بھی نسل کی پٹھان زادی تھیں۔ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ پھر اس ڈرامے کی ہروئین خود ہی اپنے باپ کے آگے سینہ سپر ہو گئی ۔وہ ہیر کی طرح اکڑ گئی کہ وہ شادی کرے گی تو اپنے’’رانجھے‘‘سلمان سے ورنہ کیڑے مارنے کا زہر کھا کر جان دے دے گی۔مگر کیڑے مارنے کا زہر کھانے کی نوبت نہیں آئی ،اکلوتی بیٹی کی دھمکی باپ کے قدم ڈگمگا گئی، انھوں نے ہتھیار ڈال کر خاموشی سے ایک دن دونوں کے نکاح کا انتظام کر دیا۔جس دن نکاح ہوا ،امی جان کے حلق سے ایک نوالہ نہ اُترا۔وہ مصلیٰ پر بیٹھی دعاؤں کے درمیان آنکھیں صاف کرتی رہیں۔انھوں نے گھر میں سب کو الٹی میٹم دے رکھا تھا کہ اگر کسی نے شادی میں شرکت کی تو وہ کچھ کھا کر جان دے دیں گی۔بس ابا جان واحد آدمی تھے،جنھوں نے دفتر جانے کے بہانے مجلس نکاح میں شرکت کی اور اپنے شکستہ دل بیٹے کو پُرنم آنکھوں سے دعا ئیں دیں۔ شادی کے دو ماہ بعد سلمان بھائی کو پولس کے محکمے میں ملازمت مل گئی تو وہ چُپ چاپ اپنی دلہن کو لے کر بنگلور چلے گئے۔
آج اس بات کو دو سال ہو رہے تھے ،ان دو سالوں میں نہ بیٹے نے گھر آنے کا نام لیا ،نہ ماں بیٹے کی فراق کی آگ میں تپ کر نرم ہوئی۔اِکا دُکا خبریں ملتی  رہیں کہ میاں رانجھے پولس میں انسپکٹر ہو گئے ہیںاور’’ہیر‘‘ایک اسکول میں پڑھانے لگی ہے اور مزے میں کٹ رہی ہے۔
لیکن آج ایک غیر متوقع تار نے سب کو عجیب کشمکش اور صورت حال سے دوچار کردیا تھا سب کے ذہنو میںایک ہی سوال ٹکرا رہا تھا ۔امی جان کی عدالت سلمان بھائی کو کیاسزادے گی اور سلما ن بھائی امی کے غیض و غضب کا کس طرح سامنا کرسکے گیں گے ۔رات کو عشا کی نماز سے فارغ ہو کر امی حسب معمول دیوان آبیٹھیں ‘کمرے میں ایک بوجھل سا سناٹا چھایا ہوا تھا ۔دفعتاً باہر گلی میں آٹو رکشا کے رُکنے کی آواز آئی۔چند لمحوں بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ اباجان بیٹھے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے‘میں قریب ہی بیٹھی ایک کتاب پڑھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ‘کان دروازے کی طرف لگے ہوئے تھے‘دل گھڑی کی پنڈولم کی طرح ٹک ٹک کر رہا تھا ۔ دستک کی آواز سن کر میں نے دروازہ کھولا تو ٹھٹھک کر رہے گئی ‘سامنے سوٹ کیس ہاتھ میں لئے سلمان بھائی کھڑے تھے ‘ان کے پیچھے سفید گٹھری نما شیر خوار بچے کو گود میں لئے سُرخ ساری میں لپٹی لپٹائی دلرس آپا کھڑی تھیں۔ سہمے سہمے خد و خال آنکھوںمیں ایک اجنبی سا خوف۔ وہ مسکرانے کی ناکام کو شش کر رہی تھیں۔ میں حیران رہ گئی۔یقیناً ان کے لئے سلمان بھائی کا اپنے ماں باپ کو بھاڑ میں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages