Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

آنسوعقیدت کے


حنیف سیّد
12\ 34,SUI KATRA, AGRA 282003 (U.P

ڈیئر سرتاج۔۔۔!
’’اس وقت میری برات میرے گھر بیٹھی ہے۔میری سہیلیاں اورہم جولیاں مجھ کو دُلھن بنانے کی تیاری میںہیں۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ میرے گورے گورے من￿ہدی والے ہاتھوں میں زہر کی شیشی ہے۔اس کوتو رات ہی میں نے اپنے وجود کے گوشے میں اُتار لینا چاہا تھا، لیکن۔۔ یہ سوچ کر باز رہی:’’ انسان کے سامنے بہت سی ایسی مجبوریاں آجاتی ہیں، جن سے وہ مجبور ہوجاتاہے ۔‘‘ممکن ہے ایسی ہی کوئی مجبوری ہو تمھارے سامنے بھی۔۔۔۔!لیکن سرتاج۔۔۔!وہ مجبوری ہے کیا۔۔۔؟ بتا تودو۔ جس کے سبب اتنی بڑی سزا دی تم نے ،مجھ کو۔‘‘
’’دیکھوسرتاج۔۔۔! میں عورت ہونے کے ناتے تم سے وعدہ کرتی ہوں، کہ تم جوچاہو گے،ہوگا وہی ۔ میرے نزدیک تواسی جذبے کانام محبت ہے ،جواپنے محبوب کی رضا کے لیے ہو۔اور ۔۔۔۔۔تم جانتے بھی ہوسرتاج۔۔۔۔! کہ رفعت ،اپنی جان دے سکتی ہے، پیار کے اس کھیل میں۔‘‘
’’میں پوچھتی ہوں:’’ کمی کیاتھی مجھ میں۔۔۔۔؟‘‘ذرا یاد کرو وہ حسین لمحات۔۔۔! جب دیکھتے ہی دیوانہ واراپنی مضبوط بانہوں کے حصار میں قید کر لیتے تھے، مجھ کو۔۔۔۔۔اگر تمھاری نظر میں مجھ سے زیادہ خوب صورت کوئی اور ہے،تو مجھ کوبھی پریوں کی شہزادی کہاتھا تم نے۔۔۔۔!‘‘
’’کیا تم نے مجھ کواپنے پہلو میں بٹھاکر میری تعریفوں کے پُل نہیں باندھے تھے۔۔۔۔؟یا کہ تمھارے اشاروں پر ناچی نہیں تھی میں۔۔۔؟رہی خاندانی بندشوں کی بات۔۔۔۔!تووہ بھی نہ تھیں، ہمارے اور تمھارے درمیان۔ میرے ابّوکو یہ رشتہ پوری طرح پسند تھا۔۔۔۔اور تمھاری امّی بھی مجھ کو اپنی بہو بنانے کے لیے دل وجان سے راضی تھیں۔پھراِس محبت کے افسانے کوانجام دینے میں کوئی دشواری تو تھی نہیں،نہ تم کو، اور نہ ہی مجھ کو۔پھرمیری سمجھ میں یہ نہیں آرہاہے کہ تم آخر مجھ کو ٹھکرا کیوں رہے ہو۔۔۔؟‘‘
’’مجھ کواچھی طرح یاد ہیںوہ دِن بھی۔۔۔،جب میں راشد پر اپنی جان نثار کرتی تھی۔۔۔اورخاص طورسے وہ دن بھی؛جب ابّو،رات کی ڈیوٹی میں فیکٹری گئے ہوئے تھے ۔ اور میری چھوٹی بہن گلنار کواچانک بخار نے آدبوچا تھا۔میرے مکان کے کِرایے داربھی اپنے گان￿و گئے ہوئے تھے اور میں اکیلی گھبرا رہی تھی ،اسی لیے میںنے راشد کواپنے گھر 

رات گزارنے کے لیے بلالیا تھا۔راشد بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر میرے شباب کا قطر ہ قطرہ نچوڑ لینے پر آمادہ تھا ،اُس روز، لیکن تم اپنی بالائی منزل کے کمرے کی کھڑکی سے حالات کی نزاکت کو بھانپ کرمیرے گھر آکر،ہم دونوں کے درمیان دیوار بن گئے تھے۔‘‘
’’خداکی قسم سرتاج۔۔!اُس رات تم بہت ہی برے لگے تھے، مجھ کو۔اُس رات میں نے تمھاری نظروں میں شرارت کورقص کرتے پہلی باردیکھاتھا۔ میں اینٹ کے جواب میں پتھر اُٹھا سکتی تھی، لیکن راشد کے اشارے پر میں خاموش رہی تھی،بالکل خاموش۔راشد نے تم کوایک جانب لے جاکر کچھ منوانے کی کوشش بھی کی تھی ،لیکن تم ٹس سے مس نہ ہوئے تھے۔آخر اُس رات، راشد کوپیاسا ہی لوٹناپڑا تھا، میرے گھرسے۔پھر توتم جب تب چھیڑنے لگے تھے، مجھ کو۔‘‘
’’ پہلے توتمھاری شرارتیں کانٹے کی طرح کھٹکیں مجھ کو؛لیکن پھر دیوار کے سہارے چڑھنے والی بیل کی طرح مجبور ہوگئی، میں بھی،اور جب تب تمھارے بالائی کمرے کی جانب پہلے نظر اٹھنے لگی، میری۔ اورپھر قدم بھی اُٹھنے کے لیے مجبور ہوگئے۔پھر تو نہ جانے کتنی حسین گھڑیاں تمھاری آغوش میں گزار دیں، میں نے۔ تم بھی اپنے کشادہ سینے سے لگاکر اتنے بوسے دیتے تھے کہ میں پاگل ہو جاتی تھی۔پیار کے جام ہم دونوں کے ہونٹوں پر چھلکتے رہے؛لیکن ہم دونوں کی تشنگی برقرار رہی۔‘‘
’’سرتاج۔۔۔۔!کیا تم کو وہ دِن یاد نہیں۔۔۔؟جب میرے ضبط کا پیمانہ لبریزہو گیا تھا ، جس کااظہار میرے بھڑکتے ہوئے جذبات اور مخمور نگاہوں کے چھلکتے پیمانوں نے کر دیاتھا۔اور میرے تشنہ جذبات نے سماجی بندھنوں کی زنجیروں کوپامال کر دینا چاہا تھا؛جس کی جھنکار سے کانپ گئے تھے تم۔۔اور تم نے سماجی بندھنوں کویہ کہہ کر مضبوط کر لیا تھا: ’’رفّو۔!یہ سب شادی سے پیشتر گناہ ہے،بہت ہی بڑاگناہ۔۔۔!‘‘
’’تمھاری یہ بے وقت کی نصیحت کس قدر ناگوار گزری تھی، مجھ کو ۔ لیکن میں تم سے بے پناہ پیار کرتی تھی ۔تمھارے اشارے پر تاحیات کن￿واری رہ سکتی ہوں ۔چاہو تو آزمالو،اب بھی۔۔۔!تمھاری چاہت سے انکاربھی کب کیا،میں نے۔۔۔؟ 
لیکن آج صرف اتنابتادو مجھ کو۔کہ مجھ کو نہ اپنانے میں کیا مجبوریاں رہیں ،تمھاری۔۔۔؟‘‘
’’ جب بھی کسی لڑکے سے میرے رشتے کی بات چلی ،ابّونے تمھاری وجہ سے اُس کوصاف انکارکردیا،کیوں کہ اُن کے ذہن میں میرے لیے تم ہی سب سے زیادہ مناسب تھے ۔میں نے اپنے لیے آئے ہر رشتے کے بارے میں بتایا،تفصیل سے سمجھا سمجھا کر،تم کو۔ لیکن تم، ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ہربات کی حد ہوتی ہے، آخر۔بہ ہرحال میرے ابّوبھی کب تک انتظار کرتے، تمھارا۔۔۔؟ آخرکومجبوراً انھوں نے ایک رشتہ منظور کر کے، بات پکی کی اور فوراًتاریخ دے دی۔اس خبر سے جب میں نے تم کوآگاہ کیا،تو تم نے میرے آن￿سو پونچھتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا:’’رفّو ۔۔! تم میری ہو،اور میری ہی رہوگی ۔تم کومجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔’تمھاری بات پر نہ جانے کیوں اب تک یقین ہے، مجھ کو۔کیوں کہ تم نے مجھ کو راشد سے خود بڑی جدوجہد کرکے چھیناتھا۔پھر بھلااِس دنیا میں کون چھین سکتا ہے تم سے مجھ کو۔۔۔۔۔؟‘‘
’’لیکن سرتاج۔۔۔!اس روز تم کوکھڑکی میں کھڑا دیکھ کر میری ایک سہیلی نے تمھارے بارے میں مجھ کوجوکچھ بتایا،پریقین نہیں آیا،مجھ کو۔کیوں کہ تم نے میرے لاکھ چاہنے کے باوجود میرے دامن میں کوئی داغ نہ لگایا،پھر تم دوسری معصوم لڑکیوں کی زندگیوں سے بھلا کیوں کر کھیلے ہوگے۔۔۔؟‘‘
’’ نہیں ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔، تم ہرگز ایسے نہیں ہو سکتے،یقینا میری سہیلی جھوٹ بولی، یا پھر اُس کوزبر دست غلط فہمی ہوئی ، تمھاری طرف سے ۔ تم ایسے نہیں ہوسکتے،کبھی بھی نہیں ہوسکتے، تم ایسے؛کبھی بھی نہیں۔پھر بھی نہ جانے کیوں میرے ذہن کے ناہم وارجنگل میںخوف ناک درندے چیخ رہے ہیں،زہریلے اژدہے ،بچھواورکنکھجورے کلبلا رہے ہیں،چاروں طرف سے خاردار جنگلی جھاڑیوں میں الجھی ہوئی ہوں میں، پوری طرح۔جس سے تم ہی نکال سکتے ہو، مجھ کو۔لیکن سرتاج۔۔۔۔!میں اپنے ہاتھوں میں رچی من￿ہدی کونظرانداز نہیں کرسکتی اس وقت۔ کروں بھی تو کیسے۔۔۔؟گھر آئی ہوئی برات کو جھٹلایا بھی تو جاسکتا۔میرا مائیوں میں بیٹھنا ، میری سہیلیوں کاباربارمیرے کمرے میںآ آکر مجھ کو چھیڑنااورپورا گھر مہمانوں سے بھرا ہونا۔۔۔۔!یہ سب خواب تونہیں ۔۔۔۔۔!حالاں کہ اس حقیقت کو جھٹلانے کے لیے اپنے سر کوکئی بار دیوار سے ٹکرا چکی ہوں،میں۔لیکن کوئی خواب ہو تو ٹوٹے بھی ،ہاں۔۔۔!ایسے خواب تو میں نے بار بار دیکھے ہیں کہ میںتمھاری دُلھن بنائی جارہی ہوں،اورتم دُولھا بنے میرے سامنے کھڑے ہو۔‘‘
’’مگر سرتاج۔۔۔!خواب توبہ ہرحال خواب ہی ہوتے ہیںاو رحقیقت؛حقیقت۔وہ خواب تھے ،جوٹوٹ گئے اور یہ حقیقت ہے ، جس نے میرے سر میں گومڑے ڈال دِیے ہیں۔بھلا کیسے نظرانداز کردوں ،ان گومڑوں کو؛جِن کے درد سے میرا سر پھٹا جارہا ہے۔‘‘
’’ کیایہ حقیقت نہ تھی کہ تم نے دوروزپہلے کی رات میرے رونے اور گڑگڑانے پر ترس کھا کر،کل کی رات جوگزر گئی، میرے ساتھ نکل کر کہیں دور ایک نئی دنیا،پیار کی دنیا، بسانے کاوعدہ نہیںکیاتھا،تم نے۔۔۔۔؟اور ۔۔۔۔۔!جب میں تمھارے وعدے پر بھروسا کرکے ،پچاس  ہزار روپے اپنے بریف کیس میں رکھ کر تمھارے کمرے پر پہنچی، تو بہت ہی سخت مایوسی ہوئی، مجھ کو۔۔۔! کیوں کہ تم نے اپنے کمرے کا دروازہ نہ کھولا۔جب کہ اپنے کمرے میں موجود تھے، تم۔۔۔!میں تم کو آواز دیتے دیتے تھک گئی ۔لیکن تم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ٹیبل فین چلنے کی آواز،اور کمرے کے اندر جلتی ہوئی ٹیوب کی روشنی ،تمھارے وہاں موجود ہونے کا ثبوت تھے۔‘‘
’’سرتاج۔۔۔۔۔!کہہ دو کہ تم اپنے کمرے میں نہیں تھے۔۔۔!لیکن تم تھے اپنے کمرے میں۔یہ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوںکہ تم اپنے کمرے میں موجود تھے ،اُس وقت ۔ کیوں کہ تمھارے چھینکنے کی آوازپہچان لی تھی میں نے، اچھی طرح ۔لیکن سرتاج۔۔۔!تم تو مجھ کو بے حد چاہتے ہو، نا۔۔۔۔؟تم ہرگز نہیں کرسکتے، ایسا۔ ۔۔۔!‘‘
’’ کہہ دو سرتاج کہ تم اُس وقت اپنے کمرے میں نہیں تھے۔ میں تمھاری جھوٹی بات کا اعتبار کرکے جھٹلالوں گی،خود کو۔یا پھریہ کہہ دو کہ تم کواچانک کوئی مجبوری لاحق ہوگئی تھی ۔اچھے اچھے جھک جاتے ہیں ،مجبوریوںکے آگے۔ لیکن سرتاج۔۔۔! تم جھک سکتے ہو کسی مجبوری کے آگے۔۔۔۔۔!میں نہیں۔میری محبت کے آگے کسی بھی مجبوری کی کوئی بساط نہیں ۔یہ زہر کی شیشی میری ساری مجبوریوں کو فنا کردے گی ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔اور میں سدا کے لیے چلی آئوں گی، تمھارے پاس ۔یہ فانی جسم نہ ہوا توکیا۔۔۔۔؟لافانی رُوح توتم تک پہنچ کر میرے اِس دعوے کوثابت کر دے گی کہ ایسی کوئی بھی مجبوری نہیں ہوسکتی پیار کے راستے میں؛کبھی بھی نہیں۔‘‘
’’سرتاج۔۔۔! اگر تم نے اب بھی مجھ کو نہ اپنایا ، تویہ زہر حلق میں اتار لوں گی پوری طرح ،اور یہ رُوح تم سے جاملے گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت جدانہ کر سکے گی، ہم دونوں کو۔‘‘
صرف تمھاری
رفّو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
’’پیاری رفّو۔۔۔۔۔۔!تمھارا خط پڑھ کر تمھاری نادانی پر بے اختیار ہنسی آئی مجھ کو،بے اختیار۔۔۔۔!‘‘
’’تمھاری سہیلی نے تم سے بالکل ٹھیک کہا میرے بارے میں ،کہ تم 
جیسی بھولی بھالی نہ جانے کتنی لڑکیوں کو میں نے اپنے فریب کانشانہ بنایاہے،اس میں غلط فہمی کی توکوئی بات ہی نہیں۔رفّو۔۔! میں ہراُس بھولی بھالی معصوم لڑکی سے اپنے پیار کاڈھونگ رچاتاہوں، جس کے دامنِ عِفّت کوسماج کے آوارہ کُتّے، جُھوٹے پیار کاجال ڈال کر تار تار کر دینا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’رفّو۔۔۔۔! یقین کرو۔۔۔!اُس رات راشد بھی تم کوایک نوخیز کلی کی مانند اپنی ہوس کا شکاربناکرتمھاری زندگی کے خرمن میں انگارے بھر دیناچاہتاتھااورتم اُس تباہی کو محض اپنی نادانی کے سبب دعوت بھی دے رہی تھیں۔جس کومیری نگاہوں نے محض چند منٹوں میں پرکھ لیا تھا۔اسی لیے میںاپناوالہانہ پیارلے کر تمھاری جانب صرف اِسی جذبے کے تحت 
بڑھاتھا کہ تم میرے پیارکے گورکھ دھندے میںالجھ کروقتی
طورسے راشدکونظراندازکردو ، اورتمھاری معصومیت پر جال پھینکنے کا موقع نہ مل سکے اُس کو،شادی سے پیشتر۔‘‘ مجھ کواپنا منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کچھ دشواریاں توآئیں،لیکن میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا،بہ ہر حال ۔راشد کے فریبی پیار کو نظر اندازکر کے میری الفت کے گورکھ دھندے میں الجھ گئیں پوری طرح ،تم۔‘‘
’’رفّو۔۔۔! اپنے اُسی والہانہ پیار کے ذریعے میں تم کواِس مقام تک لانے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔یقین جانو، رفّو۔۔۔! میں نے تم سے کوئی فریب نہیں کیا بلکہ تمھاری اصل منزل تک پہنچادیاہے، صاف ستھرا؛ تم کو، جس کی کہ متمنّی تھیں ،تم۔ یعنی کہ میں نے جو راشد سماجی بھیڑیے کے روپ میں تم سے چھیناتھا،وہی آج اپنی کوششوں سے تمہارے شوہر کے روپ میں تم کولو￿ٹارہا ہوں، جواِس وقت تمھارے دروازے پرسہرا باندھے، تمھارے دُولھا کے روپ میں، بڑی 
عقیدت کے ساتھ تمھارے پیار کی بھیک مانگنے آیا ہے ۔ رفّو۔۔۔! یہ کل کا وہی فریبی راشد؛آج کاوفا پرست تمھارا شریکِ حیات بننے کامتمنّی ہے۔آج اُس کے پاس فریب کاوہ جال نہیں، جوتمھاری معصومیت کا گلا گھونٹ سکے۔‘‘
’’کل کا فریبی راشد،جو سماج کے سامنے تم کورسوا کرنے پر آمادہ تھا، آج اُس کاوہی پیار سماج کو تمھارے پیار کے قدموں پرجھکانے لایاہے،خود کو۔‘‘
’’ میرے اِس منصوبے کو ممکن ہے تم فریب اوردھوکے کانام دو، لیکن میرے نزدیک یہ ایک عبادت ہے۔اسی عبادت کے ذریعے میں بھولی بھالی معصوم لڑکیوں کو سماج کی بخشی ہوئی، اُس سیج تک پہنچانے کی کوشش کرتاہوں، جہاں اُن کوسچا پیار،سماجی وقار اور حقیقی زندگی سے فیضیاب ہونے کے مواقع میّسر آتے ہیں۔‘‘
’’اِس عبادت کے ذریعے میں نے تم کوبھی تمھاری اُس منزل تک 
 پہنچادیاہے، جس کے لیے تم اُس رات بہت بے قرار تھیں۔‘‘
’’رفّو۔۔۔! مجھ کو پوری اُمید ہے کہ میرے پیار کے فلسفے کو اچھی طرح سے سمجھ لیا ہوگا،تم نے ۔اوراب تم نے خوشی خوشی راشد کی ہوجانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہوگا،پوری طرح۔ اگر نہیں۔۔۔! تو پھر میرے ہاتھ میں بھی زہر کی شیشی ہے۔‘‘
  تمھارا  راہ بر    سرتاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages