Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

شنگرفی آنچل کے پھیلے ہوئے سایے

*شنگرفی آنچل کے پھیلے ہوئے سائے*

                    *وسیم عقیل شاہ(جلگاؤں )*

          اردو میں فی العصر بعض افسانہ نویس ایسے ہیں جو پاپولر ادب کے ساتھ ہی اسلامی اَفکار کی اچھی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ اگرچہ اُن کا قلم زبان و ادب کی لوچ اور خُنک سے بہراور ہے اور ایسی دھمک بھی رکھتا ہے کہ سنجیدہ ادب میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکے ۔ فریدہ نثار احمد انصاری کا شمار بھی اُنہیں چند افسانہ نگاروں میں کیا جانا چاہیے ۔
           فریدہ نثار 90 کے دہے سے 'خاتون مشرق'، 'پاکیزہ آنچل' اور اِسی نہج کے دیگر رسائل کے ساتھ ہی روزنامہ 'انقلاب' اور 'اردو ٹائمز' جیسے اخباروں میں تواتر سے لکھ رہی ہیں ۔ اپنے طویل تخلیقی تجرِبے کے باعِث حالیہ اُن کے تحریر شدہ فن پارے زبردست تکنیکی صلاحیتوں کا اظہاریہ معلوم ہوتے ہیں ۔ فریدہ نثار افسانہ بننے کا فن بہ خوبی جانتی ہیں، فنی لوازمات کے برتنے میں سلیقہ مند ہیں ۔زبان و بیان کی ندرت سے افسانوی افق جگمگاتا ہے ۔ایک طرف اُن کی فکر و خیال میں یکسانیت بہت ہے اور تنوّع کم، تو دوسری طرف وہ موضوع کے انتخاب میں اچھی شُد بُد رکھتی ہیں ۔ اُن کے موضوعات کا حلقہ عموماً عورت، اسلامیات اور مختلف سماجی اصلاحات پر محیط ہے ۔ تاہم لطیف جذبات اور ہلکے فلکے رومان سے بھی اُن کی افسانوی دنیا آباد ہے ۔ فریدہ نثار خصوصاً خواتین پر زیادہ لکھتی ہیں، اسی سبب حالیہ شائع شدہ اُن کے اولین افسانوی مجموعے کا عنوان ''شنگرفی آنچل کے سائے '' گو کہ خواتین ہی سے منسوب ہے ۔
           فریدہ نثار کا اولین افسانوی مجموعہ "شنگرفی آنچل کے سائے" 136 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 30 افسانے شامل کیے گئے ہیں ۔سرورق پر سجی خیالی تصویر کتاب کے عنوان سے عین مطابقت نہیں رکھتی لیکن شفق کا گہرہ سرخ رنگ نسائی شادمانی و افسُردگی کا مشترک اشاریہ معلوم ہوتا ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ اپنے قلمی محرکات پر روشنی ڈالتی ہیں اور قلم کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی قلمی کاوشوں پر اطمینان کا اظہار بھی کرتی ہیں ۔ کتاب کے شروعاتی صفحات پر بطور تقریظات شامل قلمکاروں کے فیاض مضامین میں جا بجا ناصحانہ انداز بھی ہیں جو اعتدال کو قائم رکھتے ہیں ۔
           سرسری جائزہ لیا جائے تو ''عکس زندگی '' مجموعے کا بہترین افسانہ ہے جس میں ایک ایسی خاتون کا کردار پیش کیا گیاہے جو کینسر جیسے مہلک مرض سے عاجز ہے۔ مہ پارہ کے گرد قائم کردہ معاون کردار مل جل کر کہانی کو مسموم کوائف کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں اور ایک درد آگیں کلائمکس پر خود ہی سمٹ جاتے ہیں، لیکن قاری کے ذہن میں مہ پارہ کا کردار ایک خاص زنانہ شان کے ساتھ ابھرنے لگتا ہے ۔کہانی میں عورت کے ضعف، احساسات اور اس پر ہونے والے مظالم کی تصویر کشی انتہائی درد مندانہ انداز میں کی گئی ہے ۔
(حذف) 
             اسلامی نظریات کی تبلیغ کرتا ہوا ایک اور افسانہ ''ایک حسین عہد و پیما '' ہے جس میں ایک عام سی مسلمان لڑکی اپنے والدین کے احکام کی سختی سے پابند ہے ۔ اگرچہ اُس نے دنیا دیکھی ہے اور اطراف کے ناموافق حالات سے باخبر بھی ہے تاہم وہ اُس عقیدتِ خداوندی کے احساس سے بھی سرشار ہے جو عقیدت اُس کے والدین کی تربیت میں در آئی ہے ۔ یہ افسانہ درحقیقت ماڈرن دور کا عکاس ہے لیکن مشرقی تہذیب کی بھی پاسداری کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے نکلنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے ۔
(حذف) 
            جدائی کا کرب عورت ذات پر خواہ وہ ماں، بیوی یا بیٹی ہو پہاڑ سا ٹوٹتا ہے ۔ اُس پر مرد اپنی کج روی اور لاپرواہی سے متعلقہ خواتین کو بے دست و پا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ مرد کے اِسی جبر پر کرارا ضرب کرتا ہوا اور خواتین کے جذبات کا بہترین ترجمان افسانہ ''کیا سات سمندر پار صدائیں جاتی ہیں ''ہے ۔ افسانے میں فریدہ نثار کے تجربات اور مشاہدات کا گہرا عکس بھی نظر آتا ہے ۔ اس افسانے کو انھوں نے ڈوب کر لکھا ہے جیسے افسانے کا ایک ایک لمحہ انھوں نے خود ہی جیا ہو ۔
            ''اللہ تو روک دے یہ دل آزاریاں'' حقیقت نگاری سے مزین کامیاب افسانہ ہے ۔ افسانہ بلاشبہ سماجی نا انصافیوں کی احتجاجی داستان بیان کرتا ہے لیکن اس میں نفسیاتی عناصر بھی غیر محسوس طریقے سے در آئے ہیں ۔ اس افسانے کو کردار نگاری کے تناظر سے دیکھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا ہر کردار نفسیاتی ہے جو اپنی ذات کے ساتھ اطراف میں بھی بہ محو رہتا ہے گو کہ ہمیشہ نتیجے اخذ کرنے کی کوشش میں لگا ہے ۔
           افسانہ ''رشک قمر'' کی زبان و بیان غماز ہے کہ یہ افسانہ مصنفہ کے طویل قلمی سفر کی معراج ہے ۔
(حذف) 
           فریدہ نثار کی فکری جہات میں خواتین کو ترجیح حاصل ہے اور کمال یہ ہے کہ اُن کی فکر اسلامی تعلیمات سے مزین ہے اور خاص کر مشرقی تہذیب کی پاکیزگی سے آشکار ہوتی ہے۔ تب بھی انھوں نے اپنی تحریروں کو روایتی فکر و فن کی نذر کر دیا ۔ بطور قلم کار روایت کی پاسداری ضروری ہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ نئے چیلینج کو قبول کرنا بھی قلم کار کی ذمہ داری ہے ۔ اس لیے بھی کہ اب کا قاری بہت ہوشیار ہے اور مطالعے میں اپنے عصر کے اعتبا رسے تبدیلی و تنوع کا خواہش مند ہے ۔آپ کو پتا ہوگا کہ عبدالکریم سوداگر نے تو عقلمندی دکھا کر بندروں سے ٹوپیاں واپس کر والی تھیں لیکن اُس کے بعد کیا ہوا؟ اُس کے بعد یہ ہوا تھا کہ عبدالکریم سوداگر گھر گیا اور اپنے بیٹے سلیم کو پورا واقعہ کہہ سنایا پھر یہ تاکید بھی کی کہ ایسی سچویشن میں کبھی نہ گھرانا، میری طرح عقلمندی سے کام لینا ۔لہذا برسوں بعد سلیم اپنے باپ کی طرز پر گاؤں گاؤں ٹوپیاں فروخت کرنے لگا ۔ ایک دن وہ بھی کسی پیڑ کے نیچے گہری نیند سوگیا ۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پوٹلے سے بہت ساری ٹوپیاں بندر لے اڑے ۔ اُس نے فوراً اپنے سر کی ٹوپی اتار کر زمین پر پھینک دی لیکن بندروں پر اُس کی اِس حرکت کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اُس نے پھر کوشش کی اور اِس بار بھی نا کام رہا ۔اُسے حیران و پریشان دیکھ کر ایک بندر انسانوں کی طرح بول پڑا :
           ’’تم کیا سمجھتے ہو سلیم ،کیا ہمارے ابا نے ہمیں کچھ نہیں سکھایا ! ‘‘
          بہر حال فریدہ نثار کی کہانیاں روایتی انداز کی سہی لیکن اس قابل ضرور ہیں کہ کم از کم حلقہ ادب اسلامی کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں ۔ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages