Breaking

Post Top Ad

Sunday, September 30, 2018

غزل



یادوں کی دہلیز سے
سید شکیل دسنوی مرحوم




بیچ بھنور میں چھوڑ کے تنہا خود جا پہنچے ہو اس پار
ڈوب گئی اس دل کی کشتی‘ ٹوٹے آشا کے پتوار
ہاتھ میں گاگر‘ چال قیامت‘ اس پہ چھلکتا تیرا روپ
کسی کے دل کی دھڑکن بن گئی تیرے پایل کی جھنکار  
بیچ دیا تھا چار آنکھوں کی بات میں پڑ کر دل انمول
جی ڈھونڈے ہے اک گوری کے گاؤں کا میلہ‘ وہ بازار
یاد اسی کی ساتھ نہ چھوڑے پگ پگ تھامے میرا ہاتھ
تیاگ دیا جس ہرجائی کے کارن آخر یہ سنسار
کال اکال سے جیون نیّا چلی ہے کس منزل کی اور

کیا جانیں ہم مورکھ پرانی کون ہے اس کا کھیون ہار



    بشکریہ
عبد المجید فیضی(سمبلپور‘اڈیشا) 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages