Breaking

Post Top Ad

Sunday, September 30, 2018

ضیاء رومانی کے افسانے

   ضیاء رومانی کے افسانے  


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء رومانی نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ جنوبی ہند کے مقبول عام اخبارات کے ذریعے اپنے افسانوں کو وہ قارئین تک پہونچاتے رہے اور قارئین نے ان کی کاوشوں کو نہ صرف پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کچھ اس طرح فرمائی کہ وہ آج بھی اپنے افسانوی سفر میں پورے خلوص کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اس کا ایک مزید روشن پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے افسانے وسیع ترین حلقوں میں پڑھے گئے۔ ضیاء رومانی نے جو کچھ لکھا ہے وہ پورے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے اور اسی اعتماد کی بدولت وہ اپنے قارئین میں ہر دلعزیز ہیں۔ان کے افسانوں کی دنیا وہی ہے، جس کے شب و روز میں ہم بسر ہو رہے ہیں۔وہ حقائق کے نباض ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اطراف و اکناف پھیلی حقیقتوں کا افسانہ لکھا ہے۔ نفسیاتی دروں بینی کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اچھا یا کم اچھا،نیا پُرانا۔ اس قسم کا لیبل ان افسانوں پر نہیں لگا یا جا سکتا۔ ضیاء رومانی نے جن مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے، وہ بالکل تازہ بہ تازہ ہیں۔ان افسانوں کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان میں پیش کردہ اُلجھتے سلجھتے مسائل کبھی تماشہ بن کر ہمارے سامنے اُبھرتے ہیں اور کبھی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہماری مسرتوں،خوشیوں اور رونقوں سے بھری زندگی کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ ہم واہموں،بدبختوں اور نافہمیوں کے مکر جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ماضی،حال اور مستقبل کون سچا ہے؟۔۔ سچ اور جھوٹ کا یہ ڈالیما یقینا چکر دینے والا ہے۔ ان کا افسانہ  ’’ڈانواڈول‘‘  پڑھئے اور اس کی پیش کش پر انہیں داد دیجئے۔
ضیاء رومانی اس حوالے سے بڑے خوش بخت واقع ہوئے ہیں کہ انہیں بچپن اور لڑکپن ہی سے دینی اور ادبی ماحول میسر آگیا اور وہ آج بھی پوری سعادت مندی کے ساتھ اسے اپنا زادہِ سفر بنا ئے ہوئے ہیں اور شاید اسی کی برکتوں کے باعث کہیں بے خوف ہو کر طنز کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور کہیں وہ اپنے قارئین کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ اچھے اور بُرے کا فیصلہ وہ خود کر لیں۔ یہ ہُنرمندی ایک اچھے اور ذہین فنکار کا وصف ہوتی ہے۔  ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘  ،  ’’گھر کی لچھمی‘‘،  ’’ عید مبارک‘‘ وغیرہ اس سلسلے کے افسانے ہیں۔  ’’امن کی چٹان‘‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اسے ضیا ء رومانی کی تحریر میں پڑھئے۔۔کیا خوب بات کہی ہے۔
’’ سائنس فروغ بام عروج پر ہے، آج انسان پر اس کائنات کے بے شمار سربستہ راز افشاں ہیں جس کے طفیل دنیا نے اتنی ترقی کی ہے کہ یہاں پر آرام و آسائش کی ہر چیز دستیاب ہے، تو پھر چاروں طرف یہ احساس عدم تحفظ، بے یقینی، بے اطمنان، بے قراری کے بادل کیوں چھائے ہوئے ہیں؟  ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ یہ پُر امن و پُرسکون زندگی کی حقیقت سے ناواقف انسان ایک ذراسی Meterial acheivementپر مغرور ہے۔ پہلے تو وہ دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کرتا تھا،مگر اب وہ دوسروں کو دُکھ پہنچا کر خوش ہونے لگا ہے‘‘۔۔
’’کرشمہ‘‘ کا موضوع بظاہر فرسودہ ہے لیکن اس کی پیش کش میں ضیاء رومانی نے جس ضبط و تحمل سے کام لیا ہے اور اس کے اختتامیہ میں جوبات اُجاگر کی ہے، اس سے ان کی فنِ افسانہ نگاری پر گرفت با آسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں مسرت ہوتی ہے کہ یہ صاف ستھرے اور شفاف افسانے ترسیل کی ناکامی جیسے مطالعاتی افسوں سے مُبرا ہیں اور پڑھ کرکسی الجھن، تشنگی یا ادھورے پن کا احسان نہیں ہوتا۔
ریاست کرناٹک سے اُبھرتے ہوئے اس ہونہار افسانہ نگار کے افسانے آپ ضرور پڑھیں، مجھے اُمید ہے ان افسانوں کی دُنیا میںآپ بھی خود کو کہیں نہ کہیں ضرور پائیں گے اور اس بہانے انہیں یاد رکھنے اور یاد کرنے کی راہ نکل آئے گی اور انہیں مزید اچھے افسانے لکھنے کا حوصلہ ملتا رہے گا۔

یوسف عارفی  ،۹ اکتوبر   ۲۰۱۰؁ء
نمبربی۔۵،  ۴تھ کراس،انوبھاو نگر، ناگارا بھاوی مین روڈ،بنگلور۔560 072

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages