موت
قصر عالی شان کو بھی گِرادیتی ہے موت
زلزلہ لاکر تباہی جب مچا دیتی ہے موت
گھونٹ دیتی ہے ہزاروں آرزوؤں کا گلا
لُوٹ لیتی ہے یہ اکثر زندگی کا قافلہ
کھینچ دیتی ہے یہ اکثر دار پر منصور کو
خاک پر بے بس لِٹا دیتی ہے ہر مغرور کو
مانگ سے سیندور بڑھ کر نوچ لیتی ہے اجل
ظلم ڈھانے کی کبھی جب سوچ لیتی ہے اجل
دلہنوں کے واسطے لے کر کفن آتی ہے موت
شاخ کے سائے کی مانند پھیلتی جاتی ہے موت
چوڑیوں کو توڑ دینا موت کا اک کھیل ہے
رُخ ہوا کا موڑ دینا موت کا اک کھیل ہے
زیست کو مسرور پاکر اور جل جاتی ہے موت
کشتیوں کو موج کی صورت نگل جاتی ہے موت
سر سے یہ مریمؔ کی چادرچھین لیتی ہے کبھی
باپ سے اور ماں سے دختر چھین لیتی ہے کبھی
بربطِ ہستی کے تاروں کی خموشی موت ہے
دل نشیں رنگیں نظاروں کی خموشی موت ہے
گلشنِ ہستی میں کیا ہے؟بادِ صرصر موت ہے
جو بھی ہے ذی جاں یہاں‘اس کی مقدر موت ہے
میرے دروازے پہ جب مغمومؔ آئے گی اجل
اک تبسم بن کے لب پر پھیل جائے گی اجل
محمد باعشن مغموم کلکتوی
2nd Floor,4,Princep Street,
Kolkata- 700072
No comments:
Post a Comment