Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

تبصرہ مشرف ذوقی

وسیم عقیل شاہ  صاحب ، عمران جمیل  صاحب ، افضال انصاری  صاحب ، طاہر انجم صدیقی  صاحب ، نور محمد برکاتی صاحب  ، مدنی مجاہد سلیم  صاحب اور تمام دوستوں کو ، میں جن کے نام نہیں لے سکا ، ان کو بھی ..محبّت بھرا سلام .. محبت اور اردو کے شہر میں آنے کے لئے مجھے کسی دعوت  یا بلاوے کا انتظار نہیں . میں کسی سیمینار کا حصّہ بن کر مالیگاؤں نہیں آنا چاہتا ..تعصب ، تنگ نظری ،شدت پسندی کے اس دور میں ، میں ان لوگوں سے ملنے کا خواہشمند ہوں ، جو اس شہر میں رہتے ہیں ، اور مجھے یقین ہے کہ اس شہر کے بچے بچے کے اندر ہماری شیریں زبان،  اسی محبت اور شدت سے زندہ ہوگی کہ جب کبھی اردو کے ساتھ تعصب کا کھیل کھیلا جایئگا ، یہاں کے لوگ سب سے پہلے اردو کا پرچم اٹھاے  کھڑے ملینگے ..آج بھیونڈی  بھی  اسی نقش قدم پر ہے ..اور د عا  یہ ہے کہ ہندوستان کا ہر شہر مالیگاؤں بن جائے ..محبت اور اردو کا شہر بن جائے .ایک زمانہ تھا ، جب جواز ، نشانات، توازن  اور کتنے ہی اردو رسائل کے ساتھ اس شہر کا نام وابستہ تھا ..مجھے شب خون سے زیادہ جواز پسند تھا ..اس زمانے میں ، میری طرح  ایسے بہت سے قاری تھے جنہیں جواز زیادہ پسند تھا .جواز بند ہوا ، ایک دور کے خاتمے کا اعلان ہوا .آج بھی اس رسالے کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے .... برسوں گزر جانے کے بعد آج کے ماحول میں جب مالیگاؤں کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو جواز کی چمک انکے چہرے پر دکھایی دیتی ہے ..میرے  بھائی افضال ہوں ، عمران جمیل،وسیم عقیل شاہ ، طاہر انجم صدیقی ہوں یا  ناموں پر نہ جائیے ، میرے بھایی حق صاحب ..میں نے ان سب کے یہاں ادب کو سیکھنے ، سمجھنے ، پرکھنے ، اور اظہار کرنے کی طاقت کو مختلف موقعوں پر دیکھا ہے ..یہ حق نوجوانی کو حاصل ہے کہ بلا خوف تبصرہ کرے . یہاں بیشتر کے پاس اردو زبان کا خزانہ ہے ..سلیس ، رواں دواں زبان ، متوازن رویہ ، اور تنقید کے لئے کھلا رویہ ..اس رویہ کی تعریف ہونی چاہیے ..میں ایسے نوجوانوں سے متاثر ہوتا ہوں جو بغیر کسی خوف کے مجھے سرے سے رد کرنے کی جرات رکھتے ہوں .آخر یہ جرات اب نہیں تو کب پیدا ہوگی ؟ اس لئے میں یہ  بھی  جانتا ہوں کہ یہاں ایک بڑا  طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی بھر پور دلیل کے ساتھ افسانچوں کو رد کرتا ہے ..بھایی حق صاحب ، یہ ان  کا حق ہے .اور اسکا جواب یہ ہے کہ آپ افسانچوں کو خالص ادب میں تبدیل کر دیں . ایک شعر  میں جب انسانی کیفیات اور فکر و ویژن کے تمام رنگ بھرے جا سکتے ہیں تو افسانچوں میں کیوں نہیں ؟  تنقید ذاتی نہ ہو تو برداشت کرنے کا حوصلہ ہم سب میں ہونا چاہیے ..مجھے یقین ہے ،اس شہر نے آپ پر پھول ہی برسایے  ہوں گے .. اس شہر محبت کا انداز نرالا ہے .محبت کی زبان اردو کا شہر اگر تقسیم کرے گا تو صرف محبت ..ہاں ، تنقید کے لئے کوئی جگرا  اٹھتا ہے تو ہمیں اسکا بھی استقبال کرنا چاہیے ...

*مشرف عالم ذوقی*

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages