Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

قربانی

ایس۔کیو۔عالم۔طلعت
KASHANA
Pump House Road,Torwa.Bilaspur(C.G)


اسلم اور ششی کانت چوتھی جماعت سے کلاس فیلو رہے۔میٹرک دونوں نے ۱۹۵۶ء؁ میں پاس کیا۔دونوں کا ارادہ ہوا کالج کی پڑھائی کہیں دوسرے شہر میں کی جائے۔ششی کے فادر تو تیار ہو گئے لیکن اسلم کے والد اس کے لئے تیار نہیں تھے۔پھر ششی کے فادر کی ہی رائے سے تیار ہو گئے کیونکہ ششی کے دو ماموں الہ آباد ہی میں رہتے تھے جو ان کو گارجین شپ دیں گے۔ الہ آباد میں داخلہ کے لئے بہت پریشانی ہوئی ۔بڑی دوڑ بھاگ کے بعد ماریہ کرسچین کالگ (M.C.C)میں داخلہ ملا۔ شہر سے دوری تھی اس لئے ہاسٹل کا سہارا لینا پڑا۔الفینا ہاسٹل میں ان دونوں کو جگہ ملی۔ کالج میںمخلوط تعلیم کا انتظام تھا۔ڈسیپلن کے باعث لوگ اکثر اپنی لڑکیوں کا داخلہ یہیں کرانا پسند کرتے تھے۔
الفینا ہاسٹل کے انچارج شرما جی تھے۔اسلم فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا اس لئے جلد ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی۔اسلم اکثر غزل گاتا رہتا تھا جسے شرما جی بھی بڑے شوق سے سنتے تھے ۔دوسرے ہی سال Annual functionمیں جب بھجن competionرکھا گیا تو شرما جی نے اسلم کو بھی حصہ لینے پر مجبور کر دیا۔ اُس سال فلم بیجو باورا ریلیز ہوئی تھی ۔اسلم نے اسی فلم کے بھجن ’’من تڑپت ہے ہری درشن کو آج‘‘کی تیاری کی اور competionپہلے نمبر سے جیت لیا۔ فرسٹ ایئر کی اسٹوڈنٹ سپنا دوسرے نمبر پر آئی۔
پھر جنوری میں سرسوتی پوجا کا تہوار آگیا۔یوپی بہار میں سرسوتی پوجا اسکول کالج میں ہی ہوتی ہے ۔شرما جی نے سرسوتی وندنا کے لئے اسلم کا نام پیش کیا جس کی منظوری پرنسپل نے بھی دے دی۔یہ بات سپنا کو اچھی نہیں لگی۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسلم اس میں حصہ نہ لے مگر کامیاب نہیں ہوسکی تو براہِ راست اسلم سے ہی اپنا نام واپس لینے کو کہا ۔اسلم تذبذب میں پڑ گیا۔شرما جی اسے اتنا مانتے تھے کہ وہ ان کی بات ٹال نہیں سکتا تھا۔ وہ افسردہ تھا ‘ تب ہی ششی نے اسے ایک ترکیب بتائی جس پر عمل کرتے ہوئے اسلم رات میں ایک پیاز بغل میں دبا کر سو گیا۔کچھ دیر بعد وہ بخار میں تپنے لگا۔صبح جب سو کر نہیں اُٹھا تو شرماجی اٹھانے آگئے۔وہ بے سدھ پڑا تھا‘شرماجی نے اسے دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ ایسے میں نہانا اور وندنا گانا ممکن نہیں تھا۔مایوس ہو کر سپنا کا نام ہی طے پایا۔وہ بہت خوش تھی کہ
بھگوان نے اُس کی پرارتھنا قبول کرلی ۔ اس کی زیادہ خوشی ششی سے برداشت نہیں

ہوئی اور ساری حقیقت اس پر کھول دی۔ جس سے سپنا بہت غم زدہ ہو گئی اور پہلی فرصت میں اسلم سے مل کر جہاں اس کا شکریہ ادا کیا وہیں اس کی یہ قربانی نے اُسے اسلم کا دوست بنا دیا۔سپنا کے فادر جو ایس پی تھے اسلم کو گھر بلاکر اُسے اس بات کے لئے شکریہ ادا کیا اور گھر پر آتے رہنے کو کہا۔سپنا کا بھائی ستیش اسلم کے ساتھ ہی پڑھتا تھا اور فٹ بال کی وجہ سے دونوں اچھے دوست بھی تھے۔
وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار دوڑ رہا تھا۔ ادھر اسلم اور سپنا کی دوستی نے پیار کا رنگ اختیار کر لیا ۔وہ بے انتہا ایک دوسرے کو چاہنے لگے ۔کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چُھپتا۔خبر ایس پی صاحب کے کانوں تک بھی گئی۔پہلے انھوں نے اپنی لڑکی کو سمجھا یا پھر اسلم سے اس پیار کو آگے بڑھنے سے روکنے کو کہا۔ اپنے گھر اُس کا آنا جانا بھی بند کرا دیا۔لیکن اُن کے پیار میں کمی نہیں آئی۔دونوں کو اس نے سامنے بٹھا کر بھی بات کی لیکن کوئی نتیجہ خاطر خواہ سامنے نہیں آیا تو آخر مجبور ہو کر انھوں نے چپکے سے اسلم کے والد کو ٹیلیگرام دے کر بلایا ۔اُن کا آدمی اسٹیشن سے اسلم کے والد کو گھر لے آیا۔ پھر اسلم کو خبر دے کر گھر بلایا ۔اسلم اپنے والد کو وہاں دیکھ کر سمجھ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔یہ ایس پی صاحب کاآخری حربہ تھا ۔بات سب کے سامنے رکھی گئی ۔ایس پی صاحب نے اسلم کو T.Cلے کر واپس جانے کی بات کہی ۔سمجھانے کے ساتھ اپنے پیشے کے انداز میں دھمکی بھرے جملے بھی کہے۔اسلم اور سپنا کو اپنی دنیا تاریک ہوتی نظر آئی۔معاًدونوں اُٹھے اور اجازت لے کر اندر روم میں چلے گئے جہاں دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لگ کر بہت دیر تک روتے رہے اور دونوں نے ایک فیصلہ کیا۔ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہال میں آئے جسے دیکھ کر سب چونک گئے پھر دونوں نے ایک زبان ہو کر کہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم لوگ اس پیار کے سلسلے کو ختم کر دیں گے اور ساتھ ہی قربانی دیں گے ۔ آج کے بعد ہم کتاب کو ہاتھ نہیں لگائیں گے‘مطلب یہ کہ ہم اپنی تعلیم یہیں ختم کرتے ہیں تاکہ اس قربانی کو یاد کر کے ہم سدا اپنے دلوں میں اس پاک پیار کو زندہ رکھ سکیں۔
دونوں نے آنسو بھری آنکھوں سے ایک دوسرے کو الوداع کہا ۔اسلم اپنے والد کو لے کر ایس پی صاحب کے بنگلہ سے نکل گیا ۔سپنا دوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages