Breaking

Post Top Ad

Friday, September 28, 2018

ٹھنڈی آگ

ضیا جعفر بنگلور
194-5HCross  J.H.B.C Layout
J.P.NAGAR POST,Bngalure-560078

صابرہ خاموشی سے اپنے شوہر کی لاش کو تکے جارہی تھی۔پلکیں تک نہیں جھپک رہی تھیں۔بظاہر اس کے چہرے پر غم کے تاثرات بھی نہیں دکھائی دیے۔ اس کے شوہر عتیق کو انتقال ہویے بہت عرصہ گزر چکا تھا ۔رشتہ دار اور جانے پہچانے لوگوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔باہر سینکڑوں کی تعداد میں سوگوار موجود تھے ۔ہر کسی کی آنکھیں نم تھیں۔کوئی زور سے آہ وبکا کر رہا تھا ‘کوئی خاموش غم کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ہر ایک کے چہرے پر غم نمایاں تھا۔
کسی نے بتایا’’کتنے نیک اور رحم دل انسان تھے‘وقت ضرورت ہر ایک کی مدد کردیا کرتے تھے ‘مگر اس نیک دل شخصیت کی بیوی عتیق کے تعلق سے غلط فہمیوں کا شکار تھی۔احساس برتری اس کی رگ رگ میں سمائی تھی۔ہمیشہ انھیں برا بھلا کہا اور ان کے دلی جذبات کو کچلتی رہی۔انھیں زک پہنچاتی رہی ‘مگر بے چارے نے کبھی اُف تک نہیں کی۔خاموشی سے اپنی بیوی کے ہر وار کو سہتے رہے اور کبھی کبھی ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہویے ان کے منہ سے یہ الفاظ نکل جاتے’’ اللہ انھیں نیک توفیق دے‘‘۔گھریلو پریشانی سے بچ نکلنے کا ایک طریقہ یہ نکالا کہ انھوں نے اپنی ایک پرانی خواہش کی دبی چنگاریوں کو ہوا دے کر شعلوں میں تبدیل کر دیا۔پھر ضروری بحث سے بچنے کے لیے انھوں نے ادبی رسائل اور کتب کا مطالعہ شروع کردیا ۔ ویسے بھی ان کا شوق پرانا ہی تھا۔ جلد ہی وہ عتیق الرحمٰن کے قلمی نام سے افسانے‘ مضامین اور مراسلے لکھنے شروع کر دیے۔اپنی انفرادی تحریر کی وجہ سے جلد ہی انھیں ایک اونچا مقام مل گیا۔وہ ریاستی حدود کو توڑ کر ملکی سطح پر جا پہنچے۔خوب نام کمایا اور اعزازات اور انعامات بھی خوب حاصل کیے۔اسی سبب سے ان کا تعلق کئی ادبی اداروں سے بھی رہا۔لیکن اونچے عہدے کبھی قبول نہیں کیے۔
صابرہ بڑے گھرانے کی بیٹی تھی۔جہاں اس نے اپنی مرضی کا جینا جیا ۔ اپنی ہر خواہش کو پورا کیا۔ذہین بھی تھی اس لیے گریجویشن کرنا کوئی مشکل کام نہ رہا۔ اس نے اپنے مستقبل کے تعلق سے ہوائی قلعے تعمیر کر رکھے تھے۔تا ہم ایک شائستہ گھر کی لڑکی کا رشتہ جب ایک شکستہ سے گھر کے نوجوان سے طے ہو گیا تو اس کے ہوائی قلعے ریت کے محل ثابت ہویے۔لیکن والد کی مرضی کے آگے اس کی ایک نہیں چلی۔اس کے والد نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی یہ اقدام اٹھایاتھا۔ورنہ کون اپنی اکلوتی بیٹی کا برا چاہتا ہے؟اس کے والد کے انتقال کے بعد وصیت کے تحت جائداد کا بڑا حصہ

اور ایک معقول رقم اس کے حصے میں آئی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عتیق ایک اونچے عہدہ پر  فائز تھے۔لیکن بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ورنہ اونچے عہدے پر پہنچ کر ایک شکستہ گھر میں کون رہتا؟ شادی کے بعد صابرہ نے ایک اسکول ٹیچر کی ملازمت قبول کر لی۔اسے نوکری کی ضرورت نہیں تھی۔شوہر نے اعتراض نہیں کیا۔اس لیے بھی کہ اس کے مکان میں صابرہ تنہا سارا سارا دن کب تک گزارتی؟
اپنی تیز زبانی کی وجہ سے وہ پڑوسیوںمیں بھی غیر مقبول تھی۔عتیق نے سوچا کہ گھر کی چاردیواری میں رہ کر اکتا جانے سے تو بہتر ہے کہ من کہیں لگا رہے۔ انھیں پتاتھا کہ بیکار دماغ شیطان کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ شادی کے بعد وقت گزاری کے لیے انھوں نے صابرہ کو اس کی اجازت دے دی۔ عتیق نے بینک میں ایک جوائنٹ اکاؤنٹ کھول دیا ۔وہ بھی تنخواہ اسی اکاؤنٹ میں جمع کرنے لگے۔ پاس بک ہمیشہ صابرہ کے پاس رہتی۔انھوں نے کبھی پاس بک نہیں دیکھی کہ ان کے اکاؤنٹ میں کتنے روپے جمع ہیں اور صابرہ کتنے روپے نکالتی ہے۔ انھوں نے گھر کے تمام خرچ کی ذمہ داری صابرہ پر چھوڑ رکھی تھی ۔ان کا کام صرف روپے جمع کرنا تھا۔ عتیق نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے اور وہ اس کا کیا کررہی ہے۔اتنا ضرور تھا کہ صابرہ نے اپنے اسکول میں کبھی عتیق کی برائی کسی سے نہیں کی۔احساس کمتری کا شکار صابرہ کیوں اپنی ہنسی کا سامان اپنے کولیگزCollegaguesمیں خود مہیا کرتی؟ کون اپنے گھر کے حالات دوسروں کے سامنے رکھ کر رسوائی برداشت کرے؟عتیق کی اپنی جائداد اور زمینیں تھیں جن کی آمدنی وہ غرباء اور حاجت مندوں پر خرچ کر دیتے تھے۔وہ اپنی نیکی کی تشہیر کرنا نہیں چاہتے تھے۔اس لیے انھوں نے اپنے فلاحی کاموں اور خیرخواہی کی بھنک بھی صابرہ کو لگنے نہیں دی کہ شاید ان کے ہاتھوں پر روک لگا دے۔البتہ انھوں نے اپنی اولاد کو ہم نوا بنالیاتھا۔جو ان کی ہر کاروائی میں ساتھ دیتے ہویے ہمت بڑھاتے تھے۔
لیکن جب عتیق کو پتہ چلا کہ صابرہ میں صبر نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ اس شکستہ گھر میں گھٹن محسوس کر رہی ہے تو انھوں نے جیسے تیسے مکان کو تڑوا کر نیا مکان تعمیر کروادیا تاکہ صابرہ کو ہرگز گھٹن محسوس نہ ہو۔ ماں باپ کی لاڈلی بیٹی عزت کے ساتھ زندگی گزارے۔ان کا منشا تھا کہ صابرہ کسی بھی صورت خوش رہے۔شادی کے بعد ایک بیٹی اور دو بیٹے پیدا ہویے ۔ایک بیٹا انجنئیر تھا اور دوسرا ڈاکٹر تھا۔ بیٹی نے بی ایڈ کر لیا

تھا۔انجنئیربیٹے اور بیٹی کو ملازمت مل گئی تھی۔ڈاکٹر بیٹے نے اپنی ذاتی کلنک کھول رکھی تھی۔زندگی بڑی آسودگی کے ساتھ گزر رہی تھی۔اپنی سروس ہی میں انھوں نے بیٹی کی شادی اپنے ہم خیال دوست کے ملازمت پیشہ بیٹے کے ساتھ نہایت سادگی کے ساتھ کر دی۔بیٹوں کی شادی کے لیے کچھ مہلت مانگی ‘ورنہ عتیق اس ذمہ داری سے سر دھو لیتے۔
مگر صابرہ کی الجھی ہوئی شخصیت نے انھیں اندر ہی اندر توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ان کے کسی بھی کام سے مطمئن نہیں تھی۔ہر کام میںبیخ کنی اس کا محبوب مشغلہ بن کر رہ گیا تھا ۔اسے عتیق کا سر نیچے کرنے میں ایک خاص لطف آتا تھا۔بچے اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔وہ انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش میں ناکام ہوچکے تھے۔اپنی امی کی آنکھیں کھولنے کی کوشش میں ان کی آنکھیں بھر جاتی تھیں۔اسی لیے وہ باپ سے بے حد قریب ہو گئے تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اچھی خاصی پنشن ملنے لگی تھی۔ اب ان کا زیادہ وقت دین کے اور فلاحی کاموں میں صرف ہونے لگا۔تا ہم انھوں نے اپنا محبوب مشغلہ آج بھی برقرار رکھا ۔کئی افسانوں پر انھیں انعامات اور اعزازات ملے تھے ۔تاہم ہونی کو کس نے روکا ہے۔ایک صبح وہ اپنے بستر پر مردہ پایے گیے۔کسی سے خدمت نہیں لی۔کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ کسی کو تکلیف پہنچایے بغیر راہِ عدم سدھاریں۔خدا نے ان کی سن لی۔گھر میں کہرام مچ گیا۔بیٹی اور داماد جن کا مکان قریب ہی تھا آگیے۔بیٹے سر پٹخ پٹخ کر رونے لگے تھے۔لیکن صابرہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تک دیکھی نہیں گئی۔وہ ایک سکتے کے عالم میں پلکیں جھپکایے بغیر اپنے شوہر کو گھورے جا رہی تھی جیسے ان کا اس طرح اچانک گزر جانے سے شاک لگا ہو۔شاید وہ انھیں اور ستانا نہیں چاہتی تھی۔چند ہمدردوں نے ان کے انتقال کی خبر کے پوسٹر چھپوا کر شہر بھر کے اہم مقامات اور گلی کوچوں میں لگوا دیے۔فراخ دلی اور نیک نامی کی وجہ سے ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کے طرح پھیل گئی۔گلی میں جیسے ٹھاٹیں مارتا ہواانسانی سمندرموجزن تھا۔سب کے چہرے اداس تھے ۔آنکھیں پُرنم تھیں ‘عورتیں صابرہ اور ان کی بیٹی کو صبر کی تلقین کرتیں اور مرد ان کے بیٹوں سے ہمدردی جتاتے۔
مگر سب کو ایک ہی فکر لاحق تھی کہ صابرہ کیوں نہیں رو رہی ہے۔کیا اسے شوہر کے بچھڑنے کا غم نہیں؟ بیٹی اور کئی عورتوں نے زور سے بین بھی کیا کہ وہ رو پڑے‘  ڈاکٹر بیٹے نے خاص طور پر صابرہ کو رلانے کی ہدایت دے رکھی تھی۔مستقبل میں ہسٹریا کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔دماغ کی رگیں پھٹ کر برین ہیمریج بھی ہو سکتا ہے۔لیکن سب کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔وہ ایک ٹک اپنے شوہر کو پلک جھپکایے بغیرگھور رہی تھی۔دفعتاً ایک شریر بچے نے آنکھ بچا کر ان کا شو کیش کھولا جس میں صابرہ کے نواسوں کے کھلونے رکھے ہویے تھے۔ اس نے جیسے ہی کھلونوں کی جانب ہاتھ بڑھایا تو زوردار آواز کے ساتھ ایک مومنٹو نیچے گرپڑا جسے عتیق نے ایک بہترین افسانہ لکھنے پر حاصل کیا تھا۔
صابرہ چونک پڑی ۔کسی نے بچے کو ڈانٹا اور ٹوٹے ہویے مومنٹو کو درست کرنے کی کوشش کرنے لگے۔جیسے ہی صابرہ کی نظر ا س ٹوٹے ہویے مومنٹو پر پڑی اس نے لپک کر اسے چھین لیا اور اپنے سینے سے لگا کر بے اختیار رونے لگی ‘جیسے اس کے سینے سے مومنٹو نہیں لگا ہوبلکہ اپنے شوہر لگ گیے ہوں۔روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی ۔وہ ہچکیوں کے درمیان سوچنے لگی کہ اس نے مرحوم کو زندگی بھر خوشی نہیں دی‘کتنے الزامات لگایے ‘طعنے کسے‘بد کلامی کی‘لیکن مرحوم ہمیشہ ٹھنڈی سانس بھرتے ہویے کہا کرتے تھے ’’خدا تمھیں نیک توفیق دے‘‘
’’اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں میرے سرتاج‘‘صابرہ نے روتے ہویے بتایا ’’میں نے تمھیں پہچاننے میں دیر کر دی۔تم نیکی کے فرشتہ کا ایک روپ تھے ‘ ہمیشہ لوگوں کا بھلا کیا‘لیکن میں ہمیشہ تمھیں دکھ پہنچاتی رہی ‘زک پہنچاتی رہی‘ذلیل کرتی رہی ‘خدارا مجھے معاف کر دیجئے‘خدارا مجھے معاف کر دیجئے‘‘۔وہ ان کے قدموں پر بے ہوش ہو کر اس طرح گر ی کہ پھر اٹھنے کا موقع نصیب نہ ہو سکا۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages