ملا کرتی رہے گی جس کی یہ تنویر مدت تک
’’لکھی ہے مصحفِ رخسار کی تفسیر مدت تک‘‘
مرے دل سے تری چاہت کا مٹنا غیر ممکن ہے
رہے گی میری آنکھوں میں تری تصویر مدت تک
کبھی خوشیاں کبھی درد و الم کا ساتھ رہتا ہے
کبھی یکساں نہیں رہتی ہے یہ تقدیر مدت تک
جو غالبؔ کی زمیں میں شاعری کے بیج بوئے گا
رہے گی اس کی غزلوں میں بڑی تاثیر مدت تک
اگر آپس میں یوں لڑتے رہوگے اے وطن والو
غلامی کی رہے گی پاؤں میں زنجیر مدت تک
اگر کردار کو اپنے سنواروگے تو دنیا میں
ملے گی تم کو بھی سرورؔ یہاں توقیر مدت تک
غلام سرور ہاشمی
No comments:
Post a Comment