Breaking

Post Top Ad

Wednesday, October 3, 2018

سادگی اور پُرکاری کا شاعر غلام سرور ہاشمی

سادگی اور پُرکاری کا شاعر غلام سرور ہاشمی
صابر ادیب
۳۵؍ گل کدہ،بالمقابلکچی مسجد ،
شاہجہان آباد،بھوپال ۔۴۶۲۰۰۱


کچھ بھی نہ ساتھ جائے گا ایمان کے سوا
تم اپنی خواہشوں کی یہ چادر سمیٹ لو
درس و تدریس سے جُڑے ایک ایسے شاعر کا یہ شعر ہے جسے ادبی دنیا میں غلام سرورؔ ہاشمی کے نام سے لوگ جانتے پہچانتے ہیں۔بہار کے گوپال گنج میں ۸؍ جون ۱۹۸۳ء؁ کو آپ ایک ہاشمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔طالب علمی کے زمانے سے ہی شعروادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور پھر ان کا یہ لگاؤ ذوق و شوق کی منزلیں طے کرتا ہوا باقاعدہ ۱۹۹۹ء؁ سے شاعری سے جُڑ گیا۔ دل میں لگن تھی ‘زبان وادب کے تئیں خلوص و جانفشانی تھی اس لئے تیزی سے ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے آج اُس منزل پر متمکن ہیں جہاں فن کار کی اپنی ایک پہچان و شناخت ہوتی ہے۔متعدد مشاعروں میں شرکت اور خوش لحنی سے انھوں نے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ہے ۔ پھر بھی ان کی خواہش ہے   ؎ 
جو مشہور کردے مجھے اس جہاں میں 
میں اپنے لئے وہ ہنر چاہتا ہوں
اپنے لئے فن کاری یا ہنر چاہنا فن کار کا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہوتا۔فن کار اورشاعر کی فطرت ہی گنجینۂ مخفی ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پہچانا جائے۔ اس کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف و احترام کیا جائے۔
در اصل یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو اسے تخلیق عمل کی جانب مائل کرتا ہے۔
تخلیق عمل تخیّل کی ایک ایسی عجیب قوت ہے جس کا ماخذ لا شعور میں محفوظ احساسات‘ تجربات و مشاہدات اور معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے جو شاعر کے ذہن سے نکل کر الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر معنی و مفہوم کو اختیار کرکے عالمِ وجود میں آتا ہے۔ ثبوت کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں   ؎
کس لئے کرتا ہے تویوں اپنی طاقت پر غرور
  وقت کاقزاق تیری ہر ادا لے جائے گا
٭
کبھی خوشیاں کبھی دردوالم کا ساتھ رہتا ہے
  کبھی یکساں نہیں رہتی ہے یہ تقدیر مدت تک

قاتل نہیں ہے اور گناہ گار بھی نہیں۔ اس کو سزا ملی جو خطاوار بھی نہیں
آگ نفرت کی لگا دیتے ہیںدنیا میں یہی
 زہر آلود خیالات سے جی ڈرتا ہے
علم انسان کو عقل دیتا ہے مگر جوش و جذبہ جس کے بغیر عقل کے تمام کام نا تمام رہ جاتے ہیں‘ادب سے ہی آتا ہے۔وہ کہتے ہیں   ؎
کسی کے دل میں نفرت اور حسد باقی نہ رہ جائے
سبھوں کو پیار سے باہم ملانے کی ضرورت ہے
٭
اگر کردار کواپنے سنواروگے تو دنیا میں
ملے گی تم کو بھی سرورؔ یہاں توقیر مدت تک
٭
ہم روایت کے امیں آج جہاں میں سرورؔ
اپنے اجداد کی دستار بچانے نکلے
غلام سرورؔ صاحب نے درد مندی‘ جذبوں کے خلوص اور زندگی کے سوز و گداز کو اچھی طرح محسوس کیا ہے اور اپنی شاعری میں ان کا اظہار بھی کیا ہے۔اپنوں کی بیگانہ روی‘دوستوں کی بے وفائی‘ساتھ ہی اپنوںاور غیروں کے قتل و خون کے عناصر کی جھلک بھی ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار دیکھئے اور ان کا سد باب بھی ملاحظہ کیجئے   ؎
عجیب بات ہے ہم جن سے پیار کرتے ہیں
ہمارے دل میں وہ خنجر چلائے جاتے ہیں
٭
یوں تو مل جاتے ہیں دنیا میں بہت دوست مگر
کوئی ملتا ہی نہیں ساتھ نبھانے والا
٭
حق کا پرچم لئے ہاتھوں میں وہی آلِ رسول
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
تاریکیاں جہاں کی مٹانے کا سوچ کر
دل میں چراغِ عزم جلانا پڑا مجھے
دل کا سکون لوگوں کو دینے کے واسطے
خود چھاؤں بن کے دھوپ میںجانا پڑا مجھے
شاعر موصوف نے جہاں گلے شکوے ‘نفرت اور دشمنی کی بات کی ہے وہیں پیار و محبت‘ عزم و حوصلہ اور قسمت کی بھی بات کی ہے۔ جس سے ان کی بیدار حسیت اور صلابتِ فکر کا پتہ چلتا ہے۔ کہیں کہیں درونِ ذات کی بے کراں ویرانیاں بھی ان کی شاعری میںسایہ فگن ہو جاتی ہیں ۔جیسے یہ شعر:۔
تمھارے بن مجھے شام و سحر اب
کسی پہلو سکونِ دل نہیں ہے
٭
کہنے کے لئے اپنے ہزاروں تو ہیں مگر 
مشکل میں کوئی اپنا مددگار نہیں ہے
٭
شہر میں بہتے لہو کی ندیوں کو دیکھ کر
دل کھنچا جاتا ہے اپنا آج صحرا کی طرف
٭
مطلبی دنیا کے سارے لوگ بھی ہیں مطلبی
دل لگا کے ان سے سرورؔ کیا بھلا لے جاؤں گا
٭
راہ میں پھول بچھاتا رہا جن کی ہر دم
میرے رستے میں وہی کانٹے بچھانے نکلے
کہتے ہیں ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے شاعروں نے ماں کی عظمت و حرمت اور اس کے ساتھ ہی اس کو ستانے ‘پریشان کرنے‘ دل دُکھانے کے تعلق سے شعر کہے ہیں۔سرورؔ صاحب بھی شاعر کے اس منصب سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں   ؎
یوں ماں کی دعا کرتی ہے سر پر مرے سایہ
نزدیک مرے کوئی بلا تک نہیں آتی
٭
سرورؔ تمھارے ساتھ ہوں گر ماں کی دعائیں
منزل کو پانا کوئی دشوارنہیں ہے
٭
ظلم ڈھا کرجس نے بھی ماں کو پریشاں کر دیا۔اس نے اپنے واسطے دوزخ کا ساماں کر دیا
آخر میں انھیں کے دو نعتیہ اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔  ؎
یہ مرے آقا کی چشم ِ فیض کا ہے معجزہ
جس بیاباں پر بھی نظر ڈالی گلستاں کر دیا
یہ بھی ہے تسلیم سرورؔ دے کے پیغامِ وفا 
آدمی وحشی تھا پہلے اس کو انساں کر دیا
٭٭٭  

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages