Breaking

Post Top Ad

Wednesday, February 27, 2019

غزل فراز

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا

وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا

وہ برق رو تھا مگر رہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا

چلو یہ سیلِ بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا

یہ اہلِ درد بھی کس کی دھائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہمنوا اس کا

ہمیں نے ترکِ تعلق میں پہل کی کہ فراز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages