Breaking

Post Top Ad

Thursday, February 20, 2020

Dr Faraz Hamidi Ki Duha Nigari ڈاکٹر فراز حامدی کی دوہا نگاری

پی۔اما،م قاسم ساقی

D.No:39/107/128/3A
S.N.ColonyColony(West)
Rayachoty-516269

             ڈاکٹر فراز حامدی کی دوہا نگاری

دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہئیت کی وجہہ سے دوہے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ دوہے میں بانکپن پیدا کرنے کے لیے معنوی تہہ داری اور برجستہ کلامی کا پایا جانا ضروری ہے۔ مضمون میں دلکشی و ندرت خیال کے علاوہ دوہے میں ایک پر کیف تاثر پیدا کیا جاسکتا ہے ۔دورِ حاضر کے ممتاز و منفرد شاعر ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں کے مطالعہ سے ان تمام فنی لوازمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ موصوف اردو دوہوں کو مختلف تجربات کی راہ سے گزارکر کامیابی کی منزل حاصل کرچکے ہیں۔ دوہا چھند میں موصوف کے مختلف تجربات کا تجزیہ دو حصوں میں کیا جاسکتا ہے۔
پہلا حصہ حمدیہ دوہے، نعتیہ دوہے، مردف دوہے، معریٰ دوہے، شخصیاتی دوہے، اردو دوہے پر مشتمل ہے۔
دوسرے حصے میںحمدیہ دوہا  غزل، نعتیہ دوہا غزل، دوہا گیت، دوہا نظم، دوہا ترائیلہ، دوہا سانیٹ، دوہا معریٰ نظم، دوہا معریٰ مثلت، دوہا مثلث، دوہا مثلثی، دوہا قطعات، دوہا دوبیتی،’’ کرجاں‘‘ پر دوہے وغیرہ پر مشتمل اخترعات و ایجادات سے تعلق رکھتا ہوا ایک مکمل پراجکٹ ہے۔
موصوف کے دوہا چھند کی چند اہم خصوصیات اور فنی محاسن کا جائزہ لینے سے پہلے استاذِسخن علامہ شارق ؔجمال ناگپوری مرحوم کی زبانی اردو دہا نگاری میں موصوف کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ آئیے معلوم کریں:۔’’اردو دنیا میں جتنے بھی دوہا نگار ہیں ان میں پاکستان کے دوہا نگاروں میں جمیل الدین عالی اور بھارت میں بھگوان داس اعجاز ہیں لیکن آج سب دوہا نگاروں کے امام ڈاکٹر فراز حامدی ہیں۔ آئندہ جو شاعر اس طرح کی اختراعی کوشش دوہا جگت میں لے کر ابھرے گا وہ آپ کا مقلد ہوگا‘‘۔
ہر تخلیق کارکی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تخلیقات اردو ادب اور اربابِ سخن کے لئے ایک مشعل راہ بنے جس کی روشنی میں ادب کی راہ ہموار ہوجائے ۔اسی سوچ و چار کے قائل ڈاکٹر فراز حامدی اپنے دعائیہ دوہوں میں خالقِ کل سے التجا کرتے ہیں کہ ان کے دوہوں میں تاثیر، گیتوں میں آہنگ اور فکر میں ساتوں رنگ موجود ہوں جس کی دلکش فضائوں میں قاری کا ذہن سیراب ہوسکے۔ موصوف کے حمدیہ دوہوں میں وحدت کا پیغام ، انعام و اکرام، تعظیم و تکریم کا اظہار ہرشئے میں رب جل جلالہٗ کی شان و شوکت و قدرت کا اظہار و اقرار پایا جاتا ہے۔ ان کے حمدیہ دوہوں کے مطالعہ سے روح کو تازگی اور ایمان میں پختگی عنایت ہوتی ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:
ہر دم غور و فکر سے، رکھا میں نے کام۔ذرے ذرے سے ملا، وحدت کا پیغام
جب کھولی مٹھی بھری، ہوا ہمیں عرفان۔ہر ذرے نے کی بیاں، یارب تیری شان
سرورِ کونین محمدؐ کی ذات و صفات پر حشر تک جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ڈاکٹر فراز حامدی نے آقائے تاجدار کے اوصاف، عادات و اطوار کو نعتیہ دوہوں میں بیان کرتے ہوئے آپؐ کی ذات کو آئینہ بنا کر پیش کیا ہے۔ موصوف کے نعتیہ دوہوں کے مطالعہ سے ان کی عقیدت اور ایمان کامل پر یقین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سبز گنبد کے سائے میں جو راحت میسر ہوتی ہے اس کا نعتیہ دوہوں میں انہوں نے تذکرہ کیا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:
گبند جس کا سبز ہے، جالی سونا روپ
کتنی راحت بخشی ہے،  اس روضہ کی دھوپ
سب سے اعلیٰ آپ کے، عادات و اطوار
سر تا پا سرکار کی، آئینہ ہے ذات
اکثر دوہا نگار ہندی عروض پنگل سے ناواقف ہونے کی وجہہ سے اردو میں دوہے کو اس کی فنی لوازمات کے ساتھ پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور ان کے دوہے قابلِ اعتنا نہیں سمجھے جاتے ۔ صنف دوہا کو سادھوئوں، سنتوں، مرشدوں اور درویشوں نے اپنایا۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ صوفیانہ تخیلات کو عوام الناس تک پہنچائیں ۔اس کے لئے صرف دوہا موزوں صنف قرار پایا۔ انہوں نے حیات و کائنات، نصیحت آموز، عبرت آموز حقائق اور سچائی کی صنف دوہا کے ذریعے نقاب کشائی کی اور زندگی کے تلخ سچائیوں کو تیکھے اور نکیلے انداز میں بیان کیا۔ ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں پند و نصیحت آمیز خیالات اور صوفیانہ رنگ جابجا پایا جاتا ہے۔ ظہیر غازی پوری موصوف کی فنی صلاحیت کے تعلق سے لکھتے ہیں :’’فکری، فنی، معنوی اور ہئیتی تجربے ذہن و خیال کے نئے دریچے کھولتے ہیں اور ہوا کی تازگی کے ساتھ نئی روشنی کی تاب و تب سے ہمکنار ہونے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس زاویۂ نظر سے دیکھیں تو ڈاکٹر فراز حامدی کا دوہا رنگ اورشعری تجربات مثالی اور اثر انگیز معلوم ہوں گے‘‘۔
آپ کے  دوہوں میں صوفیانہ رنگ و آہنگ نظر آتا ہے مثلاً یہ دوہے دیکھئے  ؎
مجبوری اک وہم ہے، مت لے اس کی آڑ۔رفتہ رفتہ کھیت کو، کھاجاتی ہے باڑ
حرکت کو برکت سمجھ، جاری رکھ ہر کام۔حرکت سے تیرا بدن، پائے گا آرام
لاکھ تجھے گھاٹا ملے، پیار کا کر بیوپار۔دل میں نفرت پال کر، جیناہے بے کار
دوہوں کے لیے ایک مخصوص لے اور آہنگ کا پایا جانا ضروری ہے۔ الفاظ کی ترتیب اور لے و آہنگ کے امتزاج سے دوہوں میں غنائیت پیدا کی جاسکتی ہے ۔تبھی تو دوہا ہرکس و ناکس کے ذہن و دل میں گھر کر جاتا ہے ۔ورنہ دوہا قابل قبول ہونے کے بجائے ہر ایک دل پر گراں گزرتا ۔آپ کے دوہوں میں صرف بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب ہی نہیں بلکہ غنائیت، ندرت ِخیال اور عصری مزاج، جذبات و تجربات کا ایک بحر بے کراں پایا جاتا ہے ۔  عشرت ظفر اور مختار ٹونکی نے ان ہی خصوصیات کی وجہہ سے ڈاکٹر فراز حامدی کو دوہا نگاری کا شہنشاہ ٹھہرایا ہے۔  بقول سید مختار ٹونکی:
’’فراز حامدی کے دوہے اپنے آہنگ سے کانوں میں سنگیت رس گھولتے ہیں۔طرزِ ادا سے دل کے پردے کھولتے ہیں اور نفسِ مضمون سے ذہن میں دائمی نقش چھوڑتے ہیں بے شک اور لوگوں نے دوہے کی دھوتی پھاڑ کر رومال کیا ہوگا مگر ایں جناب نے اس چھند کے وسیلے سے کمال کیا ہے کہ اردو کے دامن کو مالا مال کیا ہے پھر فراز جدت طراز جوٹھہرے ہئیتی تجربات ان کی پرانی ہابی ہے‘‘۔
اردو شاعری کی زبان بڑی حد تک استعاراتی ہوتی ہے۔ ہر استعارہ تشبیہہ کے مختلف علاقے رکھتا ہے، جنہیں تلازمہ کہتے ہیں۔ شعر میں مختلف مفاہیم پیدا کرنے کی غرض سے ایک ہی استعارے کو مختلف تلازموں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ مثلاً ’آئینہ‘ اردو شعر و شاعری کا ایک مقبول استعارہ ہے، صفائی، حیرانی، آنکھ وغیرہ جیسے مختلف تلازموں کو استعمال میں لایا گیا ہے ۔فراز حامدی نے بھی تلازمہ آئینہ کو مختلف معنوی پہلوئوں میں استعمال کیا ہے۔ ان کے دوہوں میں آئینہ کسی کے ہونے کا احساس دلاتا ہے، تو کبھی آئینہ نردوش بن جاتا ہے، تو کبھی شیشہ کی علامت میں استعمال ہوتا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:
آنکھیں حیراں کر گیا، جلووں کا احساس
مجھ سے پہلے کون تھا، آئینے کے پاس
آئینے کی سطح پر، اشکوں کی سوغات
پانی میں ہونے لگی، تاروں کی برسات
کل تک رگ رگ میں مری، بھرا ہوا تھا جوش
لیکن اب ہوں جس طرح، آئینہ نردوش
ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں جہاں سماجیاتی اقدار اور اخلاقیات کا نیا دستور پایا جاتا ہے ،وہیں معاشرے کے زوال پذیر حالات ظلم و زیادتی، نا انصافی و نابرابری کو دوہوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے اس مزاج و آہنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ایک مضمون میں لکھتے ہیں  :
’’ فراز حامدی نے دیگر اصناف سخن کی طرح دوہے میں بھی عقل و آگہی کے نئے باب کھولے ہیں، نئی اخلاقیات کا الگ دستور سماجیات کی مختلف قدریں، مختلف مسائل اور موضوعات کی لچکساتی مثالیں ان کے دوہوں میں دیکھی جاسکتی ہیں‘‘۔

Dr Faraz Hamidi Ki Duha Nigari  ڈاکٹر فراز حامدی کی دوہا نگاری
Dr Faraz Hamidi Ki Duha Nigari  ڈاکٹر فراز حامدی کی دوہا نگاری

موصوف کے دوہوں میں زوال پذیر معاشرے کے حالات، مظلوموں کی آہ اور سماجی مسائل اور الجھے ہوئے حالات سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:
لب پر باتیں امن کی، ہاتھوں میں تلوار
بھارت ماں کے جسم پر، ایسا کاری وار
کس کو ہم مجرم کہیں، کس کو دیں الزام
آپس کی اس جنگ میں، اک اکبر اک رام
بہووں کے انجام پر، رویا جب اخبار
میری بیٹی نے کیا، شادی سے انکار
ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں جمہوریت کار نگ جابجا پایا جاتا ہے۔ ہندوستانی تہواروں جیسے ہولی، عید، سری کرشن اور رادھا، راکھی، بیساکھی وغیرہ موضوعات کو انھوں نے بڑی خوبصورتی سے دوہے کا جامہ عطا کیا ہے۔ ’’ہندوستا‘‘ کے عنوان ایک دوہے میں انھوں نے ایک ہندوستانی کے جذبۂ حب الوطنی کو پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی رہنمائوں جیسے مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور ادباء و شعراء کے نام ،شخصیاتی دوہے تخلیق کرکے ایک ہندوستانی ادیب ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:
رنگوں کا تہوار ہے، سجنے دے ہر رنگ
گوری اپنی مانگ میں، بھرلے ساتوں رنگ
تو کتنا دھنوان ہے، ہو کر ایک فقیر
گاندھی تیرے نام کی، شہرت عالمگیر
سارے ملکوں سے حسیں، میرا ہندوستان
سب سے بہتر بالیقیں، میرا ہندوستان
کرتے تھے نوخیز بھی، نہرو کی تعظیم
بچوں میں وہ پیار کو، کرتے تھے تقسیم
ڈاکٹر فراز حامدی نے اپنی محبوبہ کے لیے تانیث کا صیغہ واضح طور پر استعمال کیا ہے اور برملا انداز میں اسے ’’گوری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کی یہ محبوبہ تصوری یا خیالی پیکر نہیں بلکہ اسی عالم رنگ و بو میں رہنے والی گوشت پوست کی مادی اور مجازی محبوبہ ہے۔ وہ اپنے دوہوں میں محبوب سے پیار کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں اور خوابوں میں اس کا اظہار کرتے ہیں، تو کبھی اپنی محبوبہ ’’گوری‘‘ تلخ سچائی کہنے سے روکتے ہیں تو کبھی گوری کے گائوں کی تعریف طنزیہ انداز میں کرتے ہیں تو کبھی گوری کی نازکی کو پھول سے اور چال کو دریا سے مشابہت کرتے ہیں۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:
گوری تیرے روپ کا، آنکھوں دیکھا حال
پھولوں جیسی نازکی، دریا جیسی چال
گوری تیرے گائوں پر، یہ بھی ہے الزام
مہوے کے ہر شاخ سے، ٹپکے ہے بادام
گوری تیرے سامنے، کیا کرتے گفتار
خوابوں میں کرتے رہے، جی بھر کر اظہار
ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں دلکشی، شگفتگی و رنگینی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسات کو مختلف پیرایوں میں مختلف طریقوں سے قاری تک پہنچاتے ہیں اور لفظ و معنی کی خوشبو سے ذہن و دل معطر کردیتے ہیں۔ ان کے دوہوں میں صنائع و بدائع کے مختلف پہلوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ صنعت تکرار ، صنعت قلب، صنعت تضاد اور صنعت ذوالقافتین وغیرہ جیسی تمام خصوصیات و محاسن ڈاکٹر فراز حامدی کے دوہوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چند دوہے ملاحظہ ہوں:
(۱) صنعت ذ والقافتین:
 ایک شعر میں دویا دو سے زیادہ قافیے کے استعمال کو ذوالقافتین کہا جاتا ہے۔ اس صنعت کو ذوالقوافی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ موصوف کے دوہوں میں یہ محاسن بخوبی پایا جاتا ہے۔ چند دوہے ملاحظہ ہوں:
بن مانگے ملتی رہی، موسم کی سوغات
پت جھڑ میں ہوتی رہی، پھولوں کی برسات
ذہنوں کے تالے کھلے، علم ہوا بیدار
گائوں میں آنے لگے، شہروں کے اخبار
آئینے کی سطح پر، اشکوں کی سوغات
پانی میں ہونے لگی، تاروں کی برسات
(۲) صنعت طباق(تضاد):
شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال ایک ساتھ کیا جائے جس میں بہ اعتبار معنٰی تضاد پایا جائے ،جیسے آگ او رپانی، عرش اور فرش وغیرہ یہ تضاد اسم، فعل ، حرف اور دوسرے اجزائے کلام کے مابین بھی ہوسکتا ہے۔ موصوف نے دوہوں میں بہت ہی فنی باریکی کے ساتھ اس صنعت کو عملی جامہ پہنایا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:
کس کو اب مسکن کروں، جائوں کس کے پاس
صحرا صحرا آس ہے، دریا دریا پیاس
سوکھی سوکھے پائوں میں، گیلی گیلی ریت
بیچوں میں ہلچل ہوئی، لہرائیں گے کھیت
پھولوں کے بیوپار میں، رکھتا کون خیال
کانٹے ہم سے ایک دن، چل جائیں گے چال
(۳) صنعت قلب:
دونوں لفظوں کے حروف ترتیب میں یکساں ہوں مگر حروف کی تقدیم و تاخیر میں اس طرح فرق کردیا جائے کہ جو حرف پہلے لفظ میں مقدم ہو وہ دوسرے لفظ میں موخر مثلاً رات اور تار، بارش اور شراب وغیرہ موصوف کی ایک مثال دوہے کے ذریعے ملاحظہ ہوں:
رک کر پیدا کیجئے، لوگوں سے پہچان
انسانوں کے بھیس میں، پھرتے ہیں شیطان
(۴) صنعت تکرار(تکریر):
دوایسے الفاظ جو ایک معنی رکھتے ہوں شعر یا مصرعوں میں برابر جمع کرنا صنعت تکرار کہا جاتا ہے ۔موصوف نے لفظوں کی تکرار کی مدد سے ایک لے، ایک جھنکار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور دوہوں میں موسقیت و نغمگی کا احساس پیدا کیا ہے چند دوہے ملاحظہ ہوں:
رونے سے کیا فائدہ، غم کا کیا احساس۔ہنسنے کا ابھیاس کر، ہنسنے کا ابھیاس
ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی، بھیگی بھیگی رات۔یادیں بس میں ہوں اگر، جب چاہوں برسات
گھر آنگن جب ایک تھے، رہتی تھی تکرار۔رفتہ رفتہ اٹھ گئی، جگہ جگہ دیوار
علم بیان میں تشبیہہ کے معنی ہیں باہمی مشابہت کے ہیں۔ جب کسی مشابہت کے باعث ایک چیز کو دوسری چیز سے مشابہ قرار دیا جائے تو اسے تشبہہ کہتے ہیں۔آپ کے دوہوں کی خصوصیات کی یہ بھی ایک اہم خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کی نازکی کو پھولوں سے اور چال کو دریا سے تشبیہہ دی ہے ایک دوہا ملاحظہ ہو:
گوری تیرے روپ کا، آنکھوں دیکھا حال
پھولوں جیسی نازکی، دریا جیسی چال
موصوف کے دوہوں میں عصری حسیت، واردات قلب کا اظہار، زندگی کی تلخ سچائی کے ساتھ ساتھ تاریخی سچائیوں اور اخلاقی رفعتوں کی ترجمانی ہے۔ ان کی زبان سادہ و سلیس ہے جو عام بول چال کی زبان سے مشابہت رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک گیت نگار ہونے کے باوجود مختلف مغربی اصناف سخن پر کئی طرح کی ہئیتی تجربات سے اپنا گہرا نقش چھوڑ چکے ہیں ۔اردو میں جو کوئی ان اصناف و ہئیات پر اشعار تخلیق کرے گا وہ آپ کا مقلدٹھہرے گا،  راقم الحروف کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎
چھوڑ کر اپنے مقلد ہم یہاں سے جائیں گے
ہم نہ ہوں گے حوصلوں کا سلسلہ رہ جائے گا
ساقیؔ
الغرض ان کے کلام فکر کی تنوع او رتازگی کے اظہار کی بنا پر اردو دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages