Breaking

Post Top Ad

Tuesday, February 4, 2020

Jinhen Hind Par Naaz Hai Wo Kahan Hain?

    جنہیں ہند پر نازہے وہ کہاں ہیں؟

قاضی مشتاق احمد     

Jinhen Hind Par Naaz Hai Wo Kahan Hain?
Jinhen Hind Par Naaz Hai Wo Kahan Hain?

نریندر مودی سرکار نے نئی تعلیمی نظام میں ’’ہندی زبان‘‘ کو ’’لازمی‘‘ قرار دئے جانے کا اعلان کیا تھا لیکن تمل ناڈو میں زبردست مخالفت کے پیش نظر حکومت کو قدم پیچھے ہٹانا پڑا اور تعلیمی مسودہ میں اول جماعت سے ہندی کو ’’لازمی ‘‘  کی بجائے’’اختیاری ‘‘مضمون قرار دینے کی ترمیم منظور ہوئی۔در اصل تمل ناڈو میں ہندی مخاف تحریک دو صدی پرانی ہے۔ ہندوستان میں دوقومی نظریئے کی ابتدا انیسویں صدی کے اواخر میں ہوئی جب برطانوی اقتدار کے دوران ہندوستان میں احیاء پرست طاقتیں ہندی کو قومی زبان بنانا چاہتی تھیں۔
برٹش انڈیا میں انگریزی کے بعد اردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ حاصل تھا ۔انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہ مسئلہ دو بارہ اُٹھایا گیا کہ قومی زبان کون سی ہو؟ قومی زبان کے تعین کے لئے ایک لسانی کمیٹی بنائی گئی جس میں مولانا آزاد بھی شامل تھے لیکن’’ہندی‘‘ کی ضد کے سامنے مولانا کی دلیلیں بے اثر ثابت ہوئیں۔ کمیٹی کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کے’’کاسٹنگ ووٹ‘‘سے ہندی کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔ ۱۹۳۷ء ؁ میں جب راج گوپال اچاریہ مدراس پریسڈنسی کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے پریسنڈنسی کے تمام اسکولوں میں ہندی کو لازمی مضمون قرار دینے کا فرمان جاری کیا ۔اس کی زبردست مخالفت ہوئی۔ ’’آریہ ہنس رہے ہیں اور تامل رو رہے ہیں‘‘ ،’’برہمن طبقہ تامل کو قتل کررہا ہے‘‘ قسم کے نعرے گونجنے لگے۔ اس فرمان کے خلاف جسٹس پارٹی اور مسلم لیگ نے مل کر ۴۲؍ دنوں کی یاترا نکالی جس میں ۵۰؍ ہزار لوگ شامل ہوئے ،البتہ راجا جی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے ۔بالآخر مدراس کے گورنر اسکائن نے راجا جی کا فیصلہ واپس لیا۔ہندی کی زبردست مخالفت کی وجہ سے تامل ناڈو میں کانگریس کی سیاسی طاقت ختم ہو گئی۔نریندر مودی کانگریس کے حشر سے واقف تھے اس لئے انہوں نے تعلیمی مسودوں میں تبدیلی کر کے ہندی کو اختیاری مضمون بنا دیا۔ڈی ایم کے سربراہ اسٹالین نے مرکزی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہندی کو تامل ناڈو میں ’’تھوپنے‘‘ کی کوشش کی گئی تو ہم اس مسئلہ پر جنگ کے لئے تیار ہیں۔ ڈی ایم کے رُکن پارلیمنٹ ٹی ۔شیدا نے صاف لفظوں میں کہا تھا ’’تامل ناڈو پر ہندی زبان کو تھوپنا ایسے ہی ہے جیسے سلفر کے گودام میں ماچس کی تیلی پھینک دی جائے۔ آج دھرم یا عقیدے کے نام پر سماج دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔برٹش حکومت’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی کے باوجود ہندوستان کی دواہم قوموں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکی تھی۔ البتہ دلوں میں دراڑیں پڑ گئیں تھیں لیکن اس کا اثر ہندوستان کی روایتی گنگا جمنی تہذیب پر نہیں پڑا تھا۔ جو کام برٹش نہ کرسکے وہ آر ایس ایس نے کر دکھایا۔معاشرہ میں ’’دھرم‘‘ یک جہتی کے جذبے پر حاوی ہو گیا۔زبان تو محض ایک بہانہ ہے اصل زبان تو ’’دلوں کی زبان‘‘ ہے۔سترہویں لوک سبھا میں اس کا مظاہرہ نو منتخب ممبران پارلیمنٹ کی حلف برداری کے موقع پر ہوا۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ زعفرانی محاذ کی بات چھوڑئیے اپنے آپ کو سیکولرکہنے والی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی اپنی اپنی اصلیت دکھا دی۔حلف لیتے وقت کسی نے ہر ہر مہادیو‘کسی نے جے گورکھ ناتھ‘کسی نے بسم اللہ‘کسی نے رادھے رادھے کا جپ کیا۔ ثابت یہ ہوا کہ اب پارلیمنٹ بھی ’’منی دھرم سبھا‘‘بن گئی ہے جہاں بھانت بھانت کے پرندے اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔جس ایوان میں مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ سادھوی پرگیہ جیسے عوام کے منتخب شدہ نمائندے بھی ہوں وہاں تو ایسا ہی ہونا تھا۔ حلف برداری میں ممبران ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دئے ہوئے سرٹیفکٹ کے مطابق اپنا نام لیتے ہیں۔ سادھوی کا اصل نام‘‘پرگیہ چندر پال سنگھ ٹھاکر‘‘ ہے جو منتخب ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سرٹیفکٹ میں درج ہوتا ہے۔’’سادھو پرگیہ ‘‘نے اپنے نام پر حلف لیا مگر اپنی ولدیت کے بجائے اپنے گُرو کا نام لیا۔ بالآخر عبوری اسپیکر کو مخاطب ہونا پڑا اور ان کی مداخلت کے بعد انھوں نے صحیح نام سے حلف لیا۔ مدھیہ پردیش سے آئے راجیو پرتاپ روڑی ’’بھوج پوری‘‘زبان میں شپتھ لینے کی ضد کررہے تھے لیکن اجازت نہیں ملی کیونکہ بھوجپوری تسلیم شدہ زبان نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ڈونگری‘‘تسلیم شدہ زبان ہے اس لئے جتندر سنگھ نے ڈونگری اور بہار کے تین ممبران نے’’میتھالی‘‘ میں حلف لیا۔بی جے پی کے ہرش وردھن نے’’سنسکرت‘‘کا سہارا لیا۔ 
ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ اب ہندوستان مہاتما گاندھی کے سپنوں کا بھارت نہیں ہے بلکہ ذات،فرقوں اور زبانوں میں بٹا ہوا بھارت ہے۔ہمارا یہ فرض ہے کہ اس ملک کو مہاتما گاندھی کے سپنوں کا بھارت بنائیں جہاں سب مل کر رہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا بار بار اسے یاد کرنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔اس ملک کی عدلیہ بہت مضبوط ہے۔ہمیں پیچیدہ اور قانونی معاملات میں عدلیہ پر بھروسا کرنا چاہئے۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اگر اپنی مادری زبان سے محبت ہے تو اس کے فروغ و بقا میں حصہ لیں۔ اردو اخبارات، رسائل اور کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اپنے بچوں کو بھی اس جانب متوجہ کریں۔ اردو ایک تہذیب کا نام ہے۔ اگر اردو زندہ رہے گی تو ہماری تہذیب زندہ رہے گی۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں۔بقول آنند نارائن مُلّاؔ  ؎
مُلّا بنادیا ہے اُسے بھی محاذِ جنگ۔ایک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages