Breaking

Post Top Ad

Sunday, February 9, 2020

Mahir e Urooz Kundan Singh Arawali ماہر عروض کندن سنگھ کندن اراولی

شمس الرحمٰن فاروقی

الہ آباد

ماہر عروض کندن سنگھ کندن اراولی

Mahir e Urooz Kundan Singh Arawali ماہر عروض کندن سنگھ کندن اراولی
Mahir e Urooz Kundan Singh Arawali ماہر عروض کندن سنگھ کندن اراولی

’ہمارے اردو عروض‘‘ سے میری مراد خلیلی عروض سے ہے‘یعنی وہ عروض جوعربی زبان کے لئے بنا یا گیا تھا لیکن اسے فارسی اور بڑی حد تک اردو کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ان تینوں عروضی نظاموں پر ان کی نظر ماہرانہ اور عالمانہ ہے۔
ان کی تازہ کتاب’’ اردو عروض درپن‘‘میں بہت سے بحث طلب معاملات ہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کی دلچسپی کے لئے ہیں جو ہمارے عروض کے بلند رتبہ طالب علم ہیں۔اگر ان مباحث سے صرف نظر کیا جائے تو بھی یہاں بہت کچھ بچ رہتا ہے جس میں اجتہاد شاعر کیصلابتِ فکر نمایا ں ہے۔ جناب کندن اراولی کی یہ بات مجھے بہت صائب اور تازہ معلوم ہوئی کہ اردو میں رائج بحور و اوزان میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے پنگل کی روشنی میں بھی حاصل نہ کیا جا سکے۔اس نکتے کو شاید اوروں نے محسوس کیا ہو ‘لیکن مجھے یہ صرف کندن اراولی کے یہاں ملا اور اس میں غور وفکر کا بہت سامان موجود ہے۔مثلاً ایک اور نکتہ جس کی طرف انھوں نے اشارہ کیا ہے‘ وہ بھی اس بحث(یا مطالعے ) کو آگے بڑھانے میں معاون ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عربی میں تین سے زیادہ متوالی حرکاتِ خفیف پر مشتمل الفاظ ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اردو میں ممکن نہیں۔ یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اگر چہ عربی میں ایسے الفاظ کی کثرت ہے لیکن عربی میں عروض(یا موزونیت) اس طرح کے تمام مقامات پر تسکین کی اجازت دیتی ہے اور در حقیقت ایسی صورت حال عربی کے کسی مصرعے میں نہیں پیش آتی جہاں تین سے زیادہ متوالی حرکات روا رکھی گئی ہوں۔ وہاں بے تکلف تسکین سے کام لے لیتے ہیں۔ اس باعث عربی مصرعوں میں اکثرایسی صورتیں بھی ملتی ہیں جنھیں ہم بہ تکلف بھی موزوں قرار دے سکتے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ عربی عروض کی رو سے بہت سے زحافات ایسے ہیں جن کا اردو کیا‘ فارسی میں بھی گزر نہیں۔ لہٰذا جو کچھ عربی میں ہے یا ہو سکتا ہے وہ ہمارے لئے زیادہ کار آمد نہیں۔
ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ہر زبان کے لئے ایک ہی عروض‘یعنی مشترک عروض‘نہیں ہو سکتا۔ہر عروضی نظام اپنی زبان کے لئے مختص ہوتا ہے۔ مانا کہ خلیل وغیرہ نے عربی کو دیکھ کر قاعدے وضع کئے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ ان کی 
بیان کردہ بہت سی بحور اور زحافات کا وجود فارسی میں ممکن نہیں۔لہٰذا انھوں نے دائرے بنانے اور  بہ تکلف ان میں سے سالم بحریں اور ان کے ارکان کے فروغ 
مستخرج کئے۔ہمارے عروض کی بنیاد عربی(یا خلیلی)عروض پر بے شک ہے ‘لیکن 

اپنا الگ وجود رکھتے ہیں۔ہم فارسی پر بہت بڑی حد تک مبنی ہیں‘لیکن ہمارا سب کچھ فارسی کا نہیں۔
پنگل کی بنیاد میں دو طرح کے چھند ہیں ‘ایک کا متوازی وزن اردو میں یقینا مل سکتا ہے‘لیکن دوسری طرح کے چھند (یعنی ماترک چھند) کے متوازی سب وزن نہیں مل سکتے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ پنگل کا اصل الاصول یہ ہے کہ عینی مصرع وہ ہے جس میں سارے ارکان لگھو ہوں اور فارسی اور اردو کا عینی مصرع وہ ہے جس میں سارے ارکان گرو ہوں۔میں نے سنسکرت کے استادوں سے ایسی نظمیں سنی ہیں جن میں ایک بھی رکن گرو نہیں تھا۔اسی طرح اردو میں بھی ایسی نظم ممکن ہے‘ کم سے کم عینی طور پر۔
دوسری بات یہ ہے کہ کندن صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ چار ارکان کا اصول ایسا ہے جو مصرعے کی روانی اور خوبصورتی کی جان ہے۔لیکن پنگل کی رو سے ایسے مصرعے میں ممکن ہیںجن میں اٹھائیس حرف یا تیس حرف ہوں اور ایسے  مصرعوں کو چار ارکان پر ہمیشہ تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح کندن صاحب حسرت ؔ موہانی کے بیان کردہ یا قائم کردہ’’شکست ناروا‘‘ کے اصول کو درست سمجھتے ہیں۔بے شک پنگل میں کئی بحریں ایسی ہیں جن میں یتی یا وقفہ کی جگہ مقرر ہے اور اگر وقفہ اس جگہ پر نہ آئے تو مصرع نا موزوں قرار دیا جائے گا۔فارسی والے پنگل کے اس اصول سے واقف رہے ہوں یا نہ رہے ہوں‘لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کا التزام نہیں کیا کہ وقفہ وہیں آئے جہاں حسرتؔ موہانی چاہتے تھے۔اور ہمارے یہاں شروع سے لے کر اقبالؔ تک نے بے دھڑک اس نام نہاد شکست ناروا کو جائز رکھا ہے۔اس کی وجہ ظاہر ہے‘ وقفہ کہاں لایا جائے اور کہاں نہیں‘ اس کے لئے کوئی اصول حسرتؔ موہانی نہیں بیان کر سکے۔انھوں نے کچھ مقامات کی نشان دہی کر دی ۔ بعد کے لوگوں نے مثلاًعنوان چشتی اور سحر عشق آبادی نے تو کم و بیش ہر جگہ ہی وقفہ مفترض قرار دیا‘یہاں تک کہ کامل متفاعلن کے ہر رکن پر وقفہ ضروری قرار دیا‘بات یہ ہے کہ جب صرف او رنحواجازت دیتا ہے کہ مصرع موزوں رکھنے کی خاطر الفاظ کی  ترتیب بدل دی جائے تو پھر وقفے کی ورود میں اصول کہاں سے بن سکتا ہے؟
میں کہتا ہوں کہ اردو عروض یوں ہی فضول پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے‘ اور
اس پر اور پابندیاں عائد کرنا زیادتی اور نا انصافی ہے۔کندن صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔لیکن نئی بحریں بنانے یا نئے زحافات اور حد یہ کہ نئے دائرے ایجاد کرنے سے پابندیاں اور بڑھیں گی اور عروض جو خود ہی مشکل فن ہے ‘ مشکل تر ہو جائے گا۔کندن صاحب نے اپنی قابل قدر اور عالمانہ کتاب میں مختلف فیہ مباحث پر بہت سے صفحات صرف کئے ہیں۔میں ان کے تبحر علمی کا قائل ہوں‘لیکن ڈرتا ہوں کہ ان مباحث میں پڑ کر لوگ شعر گوئی کا فن نہ بھول جائیں ۔کمال صاحب مرحوم کا یہی معاملہ تھا۔ بہر حال میں نے کندن اراولی کی ’’اردو عروض درپن‘‘ جیسی عالمانہ کتاب مدت سے نہیں دیکھی‘اور نہ اب اس کی توقع کر سکتا ہوں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔
٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages