Breaking

Post Top Ad

Thursday, February 20, 2020

اردو کے مجاہد:رام پرکاش کپور urdu Ke Mujahid Raam Parkash Kapoor

اظہر نیّر

برہولیاوایا کنسی سمری
ضلع دربھنگا۔۸۴۷۱۰۶۔بہار(انڈیا)

            اردو کے مجاہد:رام پرکاش کپور

جناب رام کپور صاحب سے میری پہلی ملاقات۱۹۹۱ء بھلائی نگر(ایم پی)اب چھتیس گڑھ میں ہوئی تھی۔میں بھی ملازمت کے سلسلہ میں وہیں مقیم تھا۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اردو پڑھانے کے لئے کپور صاحب کا ایک مراسلہ بعنوان’’گیسوئے اردو کو سنوارنے کا عزم‘‘اردو بلٹز ویکلی ممبئی میں شائع ہوا۔انھوں نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا’’آزادی کے بعد اردو زبان اپنے ہی وطن میں جہاں وہ پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہے آج بے گھر ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔ترقی یافتہ اردو زبان اپنے ہی وطن میںقریب المرگ ہے۔آنے والی نسلیں ہم کو اس غفلت کے لئے کبھی معاف نہیں کریں گی۔‘‘مراسلہ پڑھ کر میں کافی متاثر ہوا۔ اس سنگلاخ زمین کی آبیاری کرنے والے (وہ بھی اردو کے ذریعہ)مرد مجاہد اردو کون ہیں۔تعجب اور خوشی بھی ہوئی‘میں نے فوراً ایک پوسٹ کارڈ پر تعریفی خط لکھا ‘کارڈ ملتے ہی کپور صاحب مجھ سے ملنے میری رہائش گاہ پہنچ گئے۔ ان کو دیکھ کر تعجب ہوا کہ یہ خان صاحب کون ہیں۔ خان ڈریس‘سر پر جناح ٹوپی پہنے میرے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے۔ میرے بچے دیکھ کر ڈر گئے۔ جب ان سے دریافت کیاتو انھوں نے کہا میں رام پرکاش کپور ہوں۔مجھے اظہر نیر صاحب سے ملاقات کرنی ہے۔ میرے کمرے میں بیٹھے تو ان کی نگاہیں میری کتابوں پر اور رسالوں پر تھیںاور وہ حیران ہو رہے تھے ۔ مین بھی حیرت زدہ ان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک غیر مسلم اس قدر اردو کا شیدائی اور محبت رکھتا ہے وہ بھی بھلائی نگر جیسے شہر میں(کپور صاحب بھلائی اسپات کارخانہ میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر تھے)۔ان کی شخصیت سے متاثر ہوا‘میرے ٹیبل پر مختلف رسالوں کو دیکھ کر وہ بھی حیرت میں تھے۔انھوں نے کہا کہ آپ کارخانہ میںکام کرتے ہوئے اتنے رسالوں کا مطالعہ کیسے کر لیتے ہیں اور وہ میرے پاس سے کئی رسالہ مطالعہ کے لئے لے گئے۔حسب پروگرام ہر اتوار کو ۱۱؍ بجے وہ میرے گھر آتے اور تین چار گھنٹے بیٹھ کر اردو کے سلسلہ میں گفتگو کرتے‘اپنی روداد سناتے اور رسالہ لے کر چلے جاتے۔یہ سلسلہ (میں جب بھلائی نگر میں مقیم تھا) چلتا رہا۔رسالوں کے مطالعہ سے متاثر ہو کر مراسلہ لکھنا شروع کیا ‘مراسلہ یا مضمون لکھنے کے بعد بغیر میرے مشورہ کے وہ رسالوں کو اشاعت کے لئے نہیں بھیجتے تھے۔ان کا اک پہلا مراسلہ ’’گلبن‘‘ احمد آباد اور ’’کتاب نما‘‘ دہلی‘ماہ جنوری ۱۹۹۲ء میں مہمان 

اداریہ بعنوان’’ہندوستان میں اردو کے مسائل‘‘بطور خاص شائع ہوا۔اردو داں حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ان ان کا حوصلہ بڑھا اور پھر ادباء و شعراء اور مدیران سے رابطہ قائم ہوا۔ ہند وستان کے مختلف رسالوں میں ان کا مراسلہ و مضامین شائع ہونے لگا۔مراسلہ کا زیادہ تر موضوع اردو کے سلسلہ میں ہوتا تھا۔اردو کے خلاف ایک لفظ بھی سننا اور پڑھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔فوراً مراسلہ یا مضامین کے ذریعہ  احتجاج ضرور کرتے ہیں۔ ایک اخبارمیں علامہ اقبال کے بارے میں ایک شخص نے لکھ دیا کہ( پاکستان علامہ اقبال کے دماغ کی اپج ہے)کپور صاحب فوراً احتجاج میں مراسلہ بعنوان پاکستان‘علامہ اقبال کے دماغ کی اپج نہیں ہے اور علامہ اقبال کے بارے میں مضحکہ خیز خیالات‘دوسرا اہم مراسلہ ارد و بلٹزویکلی ممبئی بعنوان’’شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ بے مثال شخصیت اور پنڈت جواہر لال نہرو‘‘۔جب یہ دونوں مراسلہ شائع ہوئے تو کئی ہفتوں تک تعزیتی اور احتجاجی مراسلے شائع ہوتے رہے۔ اس طرح ان کی شہرت اور بڑھ گئی ۔
اردو کے مجاہد:رام پرکاش کپور urdu Ke Mujahid Raam Parkash Kapoor
اردو کے مجاہد:رام پرکاش کپور urdu Ke Mujahid Raam Parkash Kapoor

میں نے بھلائی نگر میں کاروان اردو قائم کر رکھا تھا۔ وہ کاروان اردو کے سرپرست منتخب ہوئے۔پھر بھلائی نگر درگ میں انجمن ترقی اردو(ہند) کی  شاخ قائم کرنے میں کپور صاحب کا تعاون رہا اور وہ صدر منتخب ہوئے۔ انجمن ترقی اردو(ہند)کی سرگرمیاں تیز ہو گئی اور ایک لائبریری بھی قائم کی گئی۔مدھیہ پردیش اردو اکادمی سے مالی امداد حاصل کرنے میں کپور صاحب کا اہم رول تھا۔ انھوں نے ہزاروں کتابیں لائبر یری کو دیں۔
۱۹۹۷ء ایم ۔پی اردو اکادمی بھوپال کارکن منتخب کیا گیا۔ اردو کی خدمت کے پاداش میں ان کو مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال میں ۹۷۔۱۹۹۶ء کا مدھیہ پردیش کے گورنر جناب قریشی کے ذریعہ ’’شمبھو دیال سخن‘‘صوبائی اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز ’’خادم اردو‘‘کو دیا جاتا ہے۔ اعزاز ایک سند ،ٹرافی، شال اور دس ہزار روپے نقد پر مشتمل تھا۔۲۰۰۵ء دہلی میں’’علامہ اقبال سمان‘‘ سے بھی نوازا گیاتھا۔رام پرکاش کپور کی دو کتابیں ’’نئی کتاب‘‘ پبلشرز دہلی کے ذریعہ شائع ہوئی (۱)’’اردو ہندوستان میں کس کی زبان ہے؟‘‘’’(۲)’’کیا لوگ تھے‘‘اس کی اردو 
آبادی حلقہ میں خوب پذیرائی ہو۔!
رام پرکاش کپور طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند ادب تحریک کی سرگرمیوں سے جڑے رہے ۔اسی جذبے سے مارکین میں دلچسپی پیدا ہوئی اور مارکین حلقہ میں آیے۔ کامریڈ جگت رام سنیاسی‘محمد حسین عطا‘ سجاد ظہیر‘ فیض احمد فیض‘دینا ناتھ ساہنی کو اپنی پیش رو مانتے ہیں۔کالج کے زمانے میں ان کے خاص دوست مارکسٹ سردار گور شرن سنگھ تھے۔ ان کے ذریعہ مارکسٹ لٹریچر کا مطالعہ پابندی سے کرتے رہے۔کرشن چند‘کیفی اعظمی‘ ساحر لدھیانوی‘علی سردار جعفری‘ جوش ملیح آبادی‘ مجاز لکھنوی‘سعادت حسن منٹو ‘ترقی پسند شعراء و ادباء کی تخلیقات دلچسپی سے پڑھ کر متاثر ہوئے۔ کپور صاحب کتاب دوست ہیں ان کو رسائل و جرائد خریدنے کا جنون ہے۔امریکہ جانے سے پہلے ان کے پاس تقریباً دو ہزار کتابیں و رسائل جمع ہو گئی تھیں۔انھوں نے اپنے خرچ سے مجھے بھیج دیں۔
کپور صاحب کا مراسلہ اردو اور فرقہ پرست عناصرکے خلاف شائع ہوا تو ایک بیمار ذہن شخصV.K.Khannaنے ایک پوسٹ کارڈ پر انگریزی میں گندی گالیوں سے بھرا ہوا انھیں بھیجا۔انھوں نے ایک رسالے میں اسے شائع کروا دیا ۔یہ بڑی دلچسپ بات تھی۔آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کپور صاحب مرد مجاہد کی طرح اردو کی خدمت میں آج تک لگے ہوئے ہیں۔ اردو زبان وادب سے اتنی گہری وابستگی اور قابل ذکر خدمات کے سبب ان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ رام پرکاش کپور ایک اچھے معتبر قلم کار و ادیب ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان دوست اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر بھی ہیں۔ میں ان کی دائمی صحت و تندرستی کے لیے دعا گو ہوں۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages