یہ پرندے سن کے بولے کیا ہوا
پھر رہی ہے آج سر کھولے ہوا
کر رہا ہے تو خلاؤں میں سفر
کاش تیری ہم سفر ہو لے ہوا
میں بھی اس کا منتظر برسوں سے ہوں
میرے گھر بھی ایک پل ڈولے ہوا
پتھروں کے دیش میں گل رُت کہاں
اب تو چٹانوں پہ ہی سو لے ہوا
رکھ دیا کس نے دیا دیوار پر
شام ہی سے آج ہے ڈولے ہوا
دور تا حد نظر جلتے مکاں
شہر میں بھڑکا رہی شعلے ہوا
بے شجر پتوں کی صابرؔ کے بساط
جب جہاں چاہے انھیں ڈھو لے ہوا
صابر ادیبؔ
Bhopal(M.P)
Mob-09617008230
No comments:
Post a Comment