Breaking

Post Top Ad

Wednesday, March 25, 2020

Qamar Sewaani Halat e ZIndagi Aur Shakhsiyat

ڈاکٹر ظفر کمالیؔ
 قمرؔ سیوانی :حالاتِ زندگی اور شخصیت 

Qamar Sewaani Halat e ZIndagi Aur Shakhsiyat


قمر سیوانی بچپن میں کم سخن اور غور فکر کے عادی تھے۔ان کی کم سخنی کو دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ آگے چل کر سادھو ہوگا۔ بچے جب آپس میں لڑائی کرتے تھے تو یہ اسے سلجھانے کی کوشش کرتے ۔عام بچوں کی بہ نسبت ایّام ِ طفلی میں شرارتیں کم کیں۔ کھانے کے دوران بھائیوں کے ساتھ چھین جھپٹ کرتے تو والدہ کی ڈانٹ پڑتی۔ انھیں قند بہت پسند تھا اسے بازار سے منگانے کے لئے جب مچلنے لگتے تو پٹائی بھی ہوتی تھی۔کھیلوں میں فٹ بال اور والی بال سے دلچسپی تھی۔ گاہے گاہے ڈنڈا اور گولیاں بھی کھیل لیتے تھے ۔بچپن میں ہاف پینٹ خاص لباس تھا۔ پاؤں میں سلیپر پہنتے تھے،مدرسہ جاتے وقت پاجامہ پہن لیتے۔ طالب علمی کے دوران پتلون کبھی نہیں پہنا۔شادی کے بعد اہلیہ کے اصرار پر کچھ دنوں تک پتلون زیب تن کیا لیکن پھر اسے ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا اور قمیض پاجامہ ان کا لباس ٹھہرا۔شروع ہی سے جاڑے کے دنوں میں آگ تاپنے کے بڑے شوقین تھے،یہ شوق اب بھی برقرار ہے۔ قمرؔ کو سبزی سے کبھی رغبت نہیں رہی۔گوشت اور چاول ان کی پسندیدہ غذا تھی۔دادی محترمہ ان کے کھانے پینے کا بہت خیال رکھتیں۔  اسکول کے زمانے میں فلموں کے بڑے شوقین تھے،گانے کا بھی شوق تھا۔دوستوں کے ساتھ سناٹے میں بیٹھ کر فلمی گانوں کی مشق ہوا کرتی تھی۔ 
قمرؔ دوران ِ طالب علمی میں مطالعے کے بڑے شوقین تھے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں رہتی تھی۔اپنے اساتذہ کا بڑا احترام کرتے۔ ابتدا ہی سے انگریزی بولنے کا شوق تھا۔دوستوں سے اسی زبان میں گفتگو کرنا پسند کرتے تھے۔ سیوان اسٹیشن پر ان کا ایک انگریز دوست تھااس کے پاس جاکر انگریزی کی مشق کیا کرتے۔ اس کی وجہ سے ان کی انگریزی کی استعداد اچھی ہو گئی۔اسکول میں انگریزی کے ہی معلم ٹھہرے۔
قمرؔکے خاندان میں ان سے پہلے شعروادب کی روایت نہیںملتی۔ یہ ہائی اسکول کے زمانے سے ہی تک بندیاں کرنے لگے تھے۔ اسکول کے مقابلہ جاتی پروگرام میں اپنے ناموزوں اشعاربھی پڑھنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔۱۹۶۲ء سے سنجیدگی سے شاعری شروع کی ۔ان کے پہلے استاد مجنوں قبطی تھے۔ڈاکٹر انور 
سیوانی سے بھی تبادلۂ خیال بھی کیالیکن باضابطہ اصلاح کوثر سیوانی سے لی۔شاعری 

سے آغاز کے قبل ڈی۔ اے و ی سیوان یا حبیب بابو رئیس سیوان کے یہاں مشاعرے ہوتے تو اسے لازمی طور پر سننے جاتے۔شعرا کا کلام سن کر بہت خوش ہوتے اور محفل کے اختتام تک بیٹھے رہتے۔
قمرؔ سیوانی سے راقم الحروف کا رابطہ ۱۹۷۷ء سے ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ان کا مزاج سمجھنے میں بہت دشوار پیش آئی اور اتنے عرصے بعد بھی ان کی مزاج فہمی کے متعلق کوئی خاص دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ان کا ایک شعر ہے    ؎
آج تک میں سمجھ سکا نہ قمرؔ
زندگی میری کس مزاج کی ہے
یہ محض شاعری نہیں ہے بلکہ یہاں شاعر نے ایک حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ کسی شخص کے متعلق ان کی صحیح رائے کیا ہے اس کا سمجھنا دشوار ہے۔دوٹوک باتیں کبھی نہیں کرتے۔اگر کسی سے بہت خفا ہوں تب بھی اپنی خفگی کا اظہارکھل کر کرنے سے حتی الامکاں پرہیز کرتے ہیں ۔وہ شاگردوں سے بھی ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے شاگرد ہی ان کے استاد ہوں ۔وہ بظاہر ہر شخص کو اپنا پیشوا تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ ان کی ہاں میں نہیں اور نہیں میں ہاں کا پہلو ہمیشہ مخفی رہتا ہے ۔وہ راست انداز بیان کے قائل نہیں اس لیے باتیں پہلودار کرتے ہیں،یہ معاملہ نفسیاتی ہے۔ ایسا رویّہ  عموماً وہی اختیار کرتا ہے جو اپنے کو نا معلوم خطروں میں گھرا ہوا محسوس کرے۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک زمانے تک سیوان میں شاعری سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو خوش رکھنے میں کوشاں رہے۔انھیں یہ خدشہ ہمیشہ دامن گیر رہا کہ کوئی شاعر ان سے خفا ہو جائے تو نہ معلوم وہ ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھے گا۔سیوان کے نام نہاد ادبی حلقے کی روش دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بے جا بھی نہ تھا۔اسی وجہ سے انھوں نے دل کھول کر متشاعروں میں کلام بھی تقسیم کیا ور کم و بیش سب کے یہاں حاضری بھی دیتے رہے ۔جو متشاعر ان کی اس کمزوری سے واقف تھے انھوں نے اس خدشے کو اور بھی ہوا دی اور اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا ۔متشاعر کے اس استحصالی رویہ سے قمرؔ صاحب کو بہت نقصان ہوا اور اندیشہ ہائے دوردراز کے سبب ان کی صحت بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکی۔ تاخیر ہی سے سہی جب حقیقت ان پر آشکارہ ہوئی اور لوگوں کے اصل چہرے ان کے سامنے آئے تو انھوں نے رفتہ رفتہ کسی حد تک اس
بنیادی کمزوری پرقابو پالیا۔
قمرؔ سیوانی مفت کلام تقسیم کرنے میں بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔یہ کام انھوں نے۱۹۷۵ء کے بعد شروع کیا ۔متشاعروں کو شاعر بنا نے میں انھیں لطف آتا ہے ۔ انور سیوانی نے ۱۹۶۶ء جب ’’دائرہ ادب‘‘ قائم کیا اس وقت سے قمرؔصاحب نے پابندی سے ظریفانہ کلام کہنا شروع کیا لیکن اس طرح کی ساری چیزیں انھوں نے دوسروں میں تقسیم کردیںجسے لوگ ہندوستان اور دیگر جگہوں کے مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھتے اور رسالوں میں چھپواتے ہیں ۔میرا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنا ظریفانہ کلام محفوظ رکھتے تو تین چار سو صفحات پرمشتمل مجموعہ چھپ سکتا تھا لیکن افسوس کہ انھوں نے ایسے کلام پر کبھی توجہ نہیں دی اور نہ اس کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو لوگ اردو نہیں جانتے انھیں بھی غزلوں‘ نظموں ،قطعات ،سہرے حتیٰ کہ نعت و منقبت سے نوازتے رہتے ہیںجنھیں وہ دیوناگری رسم الخط میں لکھ کر پڑھتے ہیں ۔انھیں اس بات کا اطمینان رہتا ہے کہ کہ ان کے نطق کی تلوار دوسرے کے ذریعے ہی صحیح چلتی رہتی ہے ، ایسے نام نہادشعرا کی تعداد تقریباً ایک د رجن ہے جن میں کچھ مرحوم بھی ہو چکے ہیں ۔ نفسیاتی عدم تحفظ کے احساس نے انھیں یہ کام کرنے پر مجبور کیا ۔اسے طبیعت کی سادگی کہئے یا کچھ اور وہ بات سے خوش ہیں کہ کلام لینے کے بہانے ہی سہی لوگ انھیں گھرے رہتے ہیں ۔
حمید تمنائی کے وصا ل کے بعد سیوان کوثر سیوانی استادِسخن تسلیم کیے گئے۔ بعض حضرات انھیں بڑے استاد اور قمر ؔسیوانی کو چھوٹے استاد کہا کرتے تھے۔ کوثر صاحب کے بعد جب کوئی مبتدی شاعر اصلاح کی غرض سے آتا تو وہ اُسے قمرؔ سیوانی کے پاس بھیجتے کہ پہلے جا کر شاعری کی مبادیات سیکھو۔وہ فن کے معاملے میں اپنے شاگردوں میں سب سے زیادہ قمرؔ سیوانی پر ہی بھروسہ کرتے تھے اور ان کی شعری تربیت میں انھوں نے خصوصی دلچسپی لی تھی لیکن بد قسمتی سے دونوں کے تعلقات خوشگوار نہیں رہ سکے۔ کچھ لوگ قصداًدونوں کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع کرنے میں کوشاں رہے کہ ان کی قلبی تسکین اسی میں تھی اور اسی سے ان کی پوشیدہ اغراض وابستہ تھیں۔ کوثر سیوانی کے کلام میں کہیںکہیں اس شکوے کی پرچھائیاں نظر آجاتی ہیں۔ قابل لحاظ بات یہ رہی کہ دونوں کے درمیان پیدا شدہ غلط فہمی نے شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ جیسی تلخی اختیار نہیں کی اور دونوں کی طرف سے آپسی رواداری کا سلسلہ جاری رہا۔ سیوان اردو کا کوئی بڑا مرکز نہیںا ور نہ یہاں کوئی بڑا استاد گزرا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہو لیکن ہر چھوٹے بڑے شہر میں کسی نہ کسی بزرگ کوخود بخود مرکزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔کوثر صاحب کے بعد سیوان میں یہ مرتبہ قمرؔسیوانی کو ہی حاصل ہے۔ بیشتر شعرا انھیں کے خانۂ انوری کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ 
انھیں شعر کہتے تقریباً نصف صدی بیت گئی لیکن اب تک ان کا یک بھی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔پربھو نارائن ودّیارتھی نے ۱۹۸۱ء میں سیوان کے کچھ ہندی ،اردو اور بھوج پوری زبان کے شعرا کا ایک تذکرہ’’اُتپل‘‘ کے نام سے ہندی زبان میں ترتیب دیا تھا۔سندیپ پرکاش پٹنہ سے شائع ہونے والے دو سو صفحات کے اس تذکرے میں صفحہ ۱۳۷؍ پر قمرؔ سیوانی کے تعارف کے ذیل میں ان کی شعری تصنیف ’’آئین قمر‘‘ (کذا آئینہ قمر)کی تیاری کی خبر دی ہے لیکن یہ اطلاع بے بنیاد ہے۔ ان کے کلام کے شائع ہونے میں بھی ان کی بے پروائی اور تساہلی کا بڑا دخل ہے۔ شائع کرنے کے لیے ان سے کلام حاصل کرنا بھی بہت دشوار ہے۔وہ عدم اعتمادی کے حصار سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ۔احباب اور بہی خواہوں کی تمام تر کوششوں کے اور مسلسل یاد دہانیوں کے باوجودخود اپنی تخلیقات کے تئیں ان کی سرد مہری خاصی تعجب خیز ہے۔ ایسی حالت میں اگر ان کا کلام رسائل و جرائد میں برائے نام چھپا تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ان دنوں سست رفتاری سے ہی سہی وہ اپنا مجموعۂ کلام ترتیب دینے میں لگے ہیں لیکن ان کی افتادِ طبع کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ کام کب پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔اگر انھوں نے اپنے کلام کی اشاعت سے ایسی بے نیازی نہیں برتی ہوتی تو ان کے کئی مجموعے چھپ چکے ہوتے اور مقامیت کے حصار کو توڑتے ہوئے ان کی شاعرانہ حیثیت کچھ اور ہوتی۔
کلام کی اشاعت پر توجہ نہیں دینے کے باوجود قمرؔ سیوانی مشاعروں میں بہت دلچسپی لیتے تھے ۔بہارسے باہر کے مشاعروں میں تو ان کی رسائی کما حقہ نہیں ہوسکی کیونکہ اس کے لیے جس ہنرمندی بلکہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں نہیں ہے۔ وہ سیوان اور اس کے اطراف میں منعقد ہونے والی شعری محفلوں میں پابندی سے شرکت کرتے رہتے ہیں ۔کوثر صاحب کے بعد مشاعروں کی صدارت بالعموم وہی فرماتے ہیں۔
ان کا ترنم اچھا ہے لیکن دل کے دورے کے بعدترنم سے پڑھنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔احباب اگر بضد ہو جائیں تو ہلکے پھلکے ترنم میں غزل پیش کردیتے ہیں۔تحت میں بھی اچھا پڑھتے ہیں ،ہاتھوں کے اشارے اور جسم کی حرکات و سکنات سے کام لے کر یہ پر اثر انداز میں اپنا کلا م سناتے ہیں۔مشاعروں میں ان کے کلام پر جب داد و تحسین کا شور بلند ہوتا ہے تو وہ جھک جھک کر سلام نہیں کرتے بلکہ چاروں طرف گھوم گھوم کر ہاتھ جوڑتے ہیں۔
لوگوں کے تئیں تحفظاتِ ذہنی کا شکار ہوتے ہوئے بھی قمرؔسیوانی دل کے سادہ اور بے حد حسّاس انسان ہیں ۔ان کے متعلقین کی پریشانیاں انھیں بھی پریشان کرتی ہیں۔وہ اپنے وفاداروں اور نیازمندوں کاہر ممکن خیال رکھتے ہیں۔ کسی کے احسان کو فراموش نہیں کرتے۔غیبت سے انھیں بھی بہت پیار ہے لیکن کسی کی دل آزاری سے بہت بچتے ہیں۔حفظ مراتب کا انھوں نے ہمیشہ خیال رکھا۔میں نے کہیں بھی انھیں برتری جتاتے نہیں دیکھا۔ انکساری کی انتہا یہ ہے کہ وہ خوشامد کی حد تک لوگوں کے دل جوئی کرنے کے قائل ہیں۔ اگر کبھی کسی بھی ناگوارصورتِ حال سے دو چار ہونا پڑ جائے تو اسے بھی صبر کے ساتھ جھیل جاتے ہیں۔ چوں کہ دودھ کے جلے ہیں اس لیے مٹھا پھونک کر پیتے ہیں۔ کسی بات سے جلد گھبراتے ہیں تو جلد مطمئن بھی ہوجاتے ہیں۔شعرا کے ناموزوں کلام پر بھی
انھیں داد سے نوازتے رہتے ہیں۔چہرے پر ایسی سنجیدگی طاری رہتی ہے کہ
 بے چارے شاعروں کو بنائے جانے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔شہر کے اہم شعرا بھی بعض اوقات ان کی اس زد میں آجاتے ہیں۔اپنی تنگ تندرستی کے تئیں اتنے فکر مند رہتے ہیں کہ ان کے پرہیز نے بیماری کی شکل اختیار کر لی ہے۔
راقم الحروف سے ایک لمبے عرصے تک انھوں نے بے رُخی کا رویہ اختیار کیے رکھا لیکن جب میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ میرے بچوں کو انگریزی پڑھا دیں تو ازراہِ کرم انھوں نے میری درخواست قبول فرمالی۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میں نے پہلے ان کی ادبی و شعری صلاحیتوں پر گہرائی سے توجہ نہیں دی تھی لیکن رفتہ رفتہ جب غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہوا ،قربت بڑھی اور ان سے شعروادب سے متعلق گفتگو ہونے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ زبان کی صفائی پر ان کی اچھی نظر ہے اور ان سے اس سلسلے میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لہٰذا کافی غور و خوض کے بعد نومبر ۲۰۰۸ء میں ان کی شاگردی اختیار کر لی اور ان سے مشورۂ سخن کرنے لگا۔
یہ بڑے پر گو شاعر ہیں فی البدیہہ اشعار خوب کہتے ہیں۔فرمائشی کلام کہنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ سیوان کے مضافات میں مشاعرے ہوں تو گمنام بستیوں کی شان میں ایسے قطعات کہیں گے جیسے وہ دہلی اور لکھنؤ کے ہم پایہ  ہوں ۔ان سے کوئی کسی موضوع پر بھی قطعات لکھوا سکتا ہے۔بعض ایسے موضوعات پر بھی ان کے تہنیتی قطعات موجود ہیں جنھیں پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آتی ہے۔ ماہِ رمضان کے ترانوں ،قوالوں کی غزلوں ،رخصتی اور سہرے کے تو وہ بادشاہ ہیں۔
قمر ؔصاحب سچے محب وطن اور ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی ہیں ۔ان کے سیکولر مزاج نے انھیں کشادگی قلب کی دولت عطا کی ہے۔ اپنے غیر مسلم احباب کے جذبات کا بڑا خیال رکھتے ہیں ۔ان کے یہاں شادی بیاہ تہواروں اور دیگر تقریبات میں حصہ لینا اورانھیں اپنے یہاں مدعو کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
قمر ؔسیوانی نے غزل ،نظم، رباعی ،قطعہ اور حمد و نعت میں اپنے کئی جوہر دکھائے ہیں۔’’رباعیات قمر‘‘ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو زیور ِ طبع سے آراستہ ہو رہا ہے۔ یہ تمام رباعیاں۲۰۱۰ء کے اواخر اور ۲۰۱۱ء کے اوائل میں لکھی گئی ہیں ۔ان میں شجرہ ٔ اخرب کے بارہ اور شجرۂ اخرم کے آٹھ اوزان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح قمرؔ صاحب نے رباعی کے چوبیس اوزان میں سے اٹھارہ کا استعمال بڑی مشاقی اور چابکدستی سے کیا ہے جو اس فن پر ان کی گرفت کا ثبوت ہے ان رباعیوں میں جدّت بھی ہے اور تازگی بھی۔ان کے خیالات کی دنیا وسیع ہے۔متقدمین کی طرح اخلاقی موضوعات انھوں نے بھی اپنایے ہیں لیکن وہ اسی کے اسیر ہو کر نہیں گئے۔ ان کی اخترا عی قوت نے جابجا اپنا کمال دکھایا ہے۔ قلم کی حرمت ،خدمت ِ فن کا جذبہ ، تحریر کاتیور ،معیارِ فن کا لحاظ ،عجز و انکساری ،زندگی کی بے بسی اور مجبوری ،شادمانی و کامرانی ،ہمت و شجاعت، ظرف و خودداری کی حفاظت، بے نفسی و بے غرضی، شہرت کے دیوانوںاور محسن کشوں پر انگشت نمائی جیسے متنوع موضوعات نے رنگا رنگی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ بیشتر جگہوں پر بندش کی چشتی ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہے۔ندرت بیان پر بھی ان کی خصوصی توجہ ہے۔ یوں تو ان کی فکری رجائیت کے جذبے سے لبریز لیکن کہیں حزینہ نے اُداسی کی لہر میں تبدیل ہو گئی ہے۔جس نے شدت ِ تاثر میں اضافہ کیا ہے۔ یہ دور باعیاں ملاحظہ ہوں   ؎
کیا دن گزرنے کا ہے صدمہ اے شام ۔کیا رات کی آمد سے ہے خطرہ اے شام
کیا ڈوبتے سورج سے ہوئی ہے ان بن۔کیوں اترا ہوا ہے ترا چہرہ اے شام
٭
آنکھیں بھی مری ہو نہ سکیں نم اے دن۔کیوں وقت نے تھوڑا سا دیا غم اے دل 
انصاف کہاں اس نے مرے ساتھ کیا ۔دھن مجھ کو دیا بھی تو بہت کم اے دل
اس طرح کی خوبصورت رباعیوں کی تعداد خاصی ہے۔قمرؔ سیوانی کے یہاں باتیں سادگی کے ساتھ کہی گئی ہیں لیکن اس سادگی میں شاعرانہ صنّاعی اور فنّی پختگی بھی ہے۔سورج سے گھٹاؤں کی طرح الجھنا، تنہائی کا سنورنا ،برسات کا دریاؤں کو خط لکھنا،بستر کا انگڑائی لینا،دل کی راہوں میں سرابوں کی دھوپ کا پھیلنا،بستی کا صحرا ہونا،تاریخ کا کروٹ بدلنا،سورج کی نگاہوں میں دریا کا چبھنا، سچائی رقم کرتے وقت قلم کا منصف کے قلم کا ٹوٹ جانا،گل خندہ کے چہرے کا اُترنا، ٹھوکروں سے منزل کا پتہ ملنا، بادل کی رگ رگ سے پانی نچوڑ لینا اور طوفان کا سفینے سے معافی طلب کرناوغیرہ۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو قمرؔ کی رباعی کے لئے وزنِ وقار کا سبب ہیں۔ آغوشِ تفکر،گرداب معنی،محنت کی چٹان، حسن تخیل کی نماز، موجوں کی فصیل، سورج کی ہتھیلی،خوشبو کی دیوار،آنسو کے لباس، ہوا کا بستر،جذبوں کی سیاہی ،خوابوں کی دھوپ، صحرا کے خوف،الفاظ کی قندیل، غم زدہ تعبیر، تشویش کی دلدل، تحویل مسرت، پردار امیر، طائرِ طوفان، تقدیس کا سورج، شعلہ نما آس اور دل کی جلی گھاس جیسی ترکیبوں نے ان کی رباعیوں میں چمک پیدا کردی ہے۔ 
قمرؔ صاحب اپنے فن کے تئیں بے حد حساس ہیں۔انھوں نے لکھا ہے کہ   ؎     یوں میری نظر میں ہے سخن کی منزل۔سورج ہو قمر ؔ جیسے کرن کی منزل
رستے میں ٹھہرنے کی ضرورت کیا ہے۔آواز مجھے دیتی ہے فن کی منزل
مجھے پورا یقین ہے کہ وہ سیوان کی نا موافق اور غیر ادبی فضا سے ملول نہیں ہوں گے اور خود اپنی باتوں پر قائم رہتے ہوئے رستے میں ٹھہریں گے نہیں بلکہ فن کی منزل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گے اور جس طرح رباعی کا یہ مجموعہ منظر عام پر آرہا ہے اسی طرح ان کی غزلوں اور دیگر اصنافِ سخن پر مشتمل مجموعے بھی تیاریوں کے مرحلے سے گزر کر ہمارے قلب و نظر کو سرور و تازگی بخشیں گے۔
اعتراف
تخیل کا نایاب نگینا ہے قمرؔ۔الفاظ کے ساحر کا خزینا ہے قمرؔ
سیراب ہوا کرتے ہیں جس سے میکش۔اس میکدۂ فکر کا مینا ہے قمرؔ
 ٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages