Breaking

Post Top Ad

Thursday, May 21, 2020

بر صغیر کے ممتاز رباعی گو شاعرحضرت قمرؔ سیوانی Mumtaz Rubayi Go Shayer Hazrat Qamar Sewaani

پروفیسر خلیل الرحمٰن

بر صغیر کے ممتاز رباعی گو شاعرحضرت قمرؔ سیوانی 

قمرؔ سیوانی ہند وپاک کے ایک ممتاز رباعی گو شاعر ہیںکہ جنھوں نے اپنی رباعیوں سے اردو شاعری کو اس طرح نوازا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ رباعی ایک مشکل فن ہے لیکن ہے بہت نازک اور خوبصورت۔ یہ کہنا بھی ٹھیک ہوگا کہ نزاکت ہی اس کی مشکل ہے۔ رباعی جب اپنے اندر احساس اور جذبے کے گہرے رنگوں کو لیے جلوہ گر ہوتی ہے تو نکھر جاتی ہے،بہت خوبصورت ہو جاتی ہے۔نزاکت اس فن کی ایسی کہ ذرا سی لغزش ہوجائے تو چھوئی موئی بن جاتی ہے۔
رباعی کے فن کے اوزان پر گہری نظر رکھنے والے اس دور میں بہت کم شعرا ہیں۔چار مصرعوں میں تجربے اور الفاظ کی ہم آہنگی کا جلوہ پیش کردینا آسان نہیں ہے ۔یہ اختصار کا آرٹ ہے اس کا اپنا جلوہ ہے اور اپنا آہنگ، یہ دونوں جلوہ اور آہنگ اپنی ہم آہنگی سے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ 
حضرت قمر ؔسیوانی ایک بزرگ شاعر ہیں جو رباعی کی تکنیک اور اس کے تقاضے کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔کہتے ہیں عمر ۷۴؍۷۵؍رہے۔ اردو شاعری کی کلاسیکی روایات جیسے ان کے شعور اور تحت الشعور میں رچی بسی ہیں۔ رباعی کے فن پر ان کی گرفت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ رباعیات کا یہ مجموعہ پڑھتے ہوئے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے ۔جیسے ضعیفی، دوڑتی دوڑتی یہاں تک نہیں پہنچی ہے بلکہ پچھلے تجربوں کی روشن قندیلوں سے روشنی حاصل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اس منزل یا مقام تک آئی ہے ۔حضرت قمرؔ سیوانی جانے کب سے رباعیاں کہہ رہے ہیں ،اتنا وقت گزر جانے کے بعد ان کی رباعیوں کا پہلا مجموعہ شائع ہو رہا ہے۔جس کی پیش کش کی سعادت مجھے بھی نصیب ہو رہی ہے۔
حافظ شیرازی نے اپنی کتاب میں ایک رباعی میں جو یہ کہا ہے:
لب باز مگیر یک زماں از لبِ جام۔تا برداری کام جہاں از لبِ جام
در جامِ جہاں چو تلخ وشیریں بہم ست۔ایں از لبِ یار خواہ و آں از لبِ جام 
یہ بھی رباعی کے بنیادی مزاج اور امتیازی رجحان میں شامل ہے۔زندگی کی کڑواہٹ اور شیرینی کے مختلف پہلوؤں کو رباعی کے چار مصرعوں میں مختلف انداز میں پیش کرنے کا ایک طویل سلسلہ قائم ہے۔ حضرت قمر ؔسیوانی کی رباعیوں کی یہ بھی ایک بنیادی سچائی ہے جو مختلف شعری تجربوں میں طرح طرح سے نمایاں ہو تی ہے، 
جناب قمر سیوانی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا کے جام پینے سے کبھی ہونٹ نہ ہٹا،دنیا کی کڑواہٹ اور شیرینی دونوں حاصل ہوںگی۔دنیا کے کلام سے زیادہ تلخی اور کڑواہٹ ملے تو محبوب کے ہونٹوں کا جام سے مٹھاس اور شیرینی حاصل کر لے، تلخی اور کڑواہٹ کم ہو جائے گی۔
قبلہ حضرت قمرؔسیوانی صاحب کی رباعیوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ موضوعات کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ سچے خیالات اور جذبات کی پیش کش کے لیے مناسب لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے۔اس سے شاعر کے ذہن میں لفظوں کی صوتیات کا ایک پختہ نظام کام کرتا محسوس ہوتا ہے۔ان رباعیوں کے وسیع کینوس میں جانے کتنے موضوعات جو اپنی معنویت اور آہنگ سے متاثر کرتے ہیں۔چند خوبصورت رباعیاں ملاحظہ ہوں   ؎
ہر موج بلا خیز کا دم ٹوٹ گیا ۔تھا جس پہ بہت ناز وہ وہم ٹوٹ گیا 
کشتی نے میری دھول چٹا دی اس کو۔اس گہرے سمندر کا بھرم ٹوٹ گیا
٭
شب آہ بھرتی ہے تو ڈر لگتا ہے۔فریاد وہ کرتی ہے تو ڈر لگتا ہے
جب اشک ِ غم و درد کے آئینے میں۔تنہائی سنورتی ہے تو ڈر لگتا ہے
٭
نکیلی چٹانوں سے گزرتا ہوگا۔وہ ٹوٹ گیا ہوگا بکھرتا ہوگا
اب شام ہوئی رختِ سفر ساتھ لیے۔سورج کسی دریا میں اُترتا ہوگا 
٭
قدموں کو سلگتا ہوا صحرا دے دو۔تم زخمِ جگر کو کوئی گہرا دے دو
پلکوں کو میری دے دو کئی چھبتے خواب۔ہونٹو ں کو میری پیاس کا دریا دے دو
٭
آنکھوں میں مری درد کا بہتا دریا ۔ہونٹوں پہ تبسم کا سلگتا دریا
پھیلا ہے رخِ زیست پہ صحرائے خوف۔ہے دل میں رواں شدتِ غم کا دریا
 ٭

جذبات کے صفحوںپہ جو تحریریںہیں۔الفاظ کی قندیل کی تنویریںہیں
کرتی ہیں مری سانسیںشب میں باتیں ۔آئینے کے سینے میں جو تصویریں ہیں
٭
حضرت قمرؔ سیوانی اس دور کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ اس دور میں ایسے پختہ ذہن اور ایسی قادر الکلامی کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
اللہ ان کی عمر دراز کرے اور بھی خوبصورت رباعیوں کا منتظر ہے بابا سائیں۔
٭٭٭ 
بر صغیر کے ممتاز رباعی گو شاعرحضرت قمرؔ سیوانی  Mumtaz Rubayi Go Shayer Hazrat Qamar Sewaani
بر صغیر کے ممتاز رباعی گو شاعرحضرت قمرؔ سیوانی  Mumtaz Rubayi Go Shayer Hazrat Qamar Sewaani

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages