Breaking

Post Top Ad

Wednesday, May 27, 2020

شین۔ حیات ؔ فرض دریا کا ادا کرتا رہا برسوں قمرؔؔ Qaraz Darya Ka Ada Karta Raha Barsoun Qamar

 شین۔ حیات ؔ

فرض دریا کا ادا کرتا رہا برسوں قمرؔؔ 


قمرؔ سیوانی اردو شاعری کا وہ معتبر نام ہے جسے کبھی کسی دور میں فراموش نہیں کیا جاسکتامگر المیہ یہ ہے کہ انھیں نہ دیکھا گیا ،نہ سمجھا گیا اور نہ کبھی کچھ لکھے جانے کی زحمت کی گئی۔نہ گوشے شائع ہوئے ،نہ اخباروں،رسالوںمیں متواتر حاضری درج ہوئی نہ ناقدوں نے توجہ فرمائی ،مگر یہ شخص پھر بھی اردو شاعری کے گلشن میں شجر کاری اور آبیاری کرتا رہا اور اور اپنے افکار و احساسات کے نئے گل بوٹے کھلاتا رہا۔ کسی تپسوی کی طرح وہ سادھنا کرتا رہا اور اپنی غزل کی نئی زمین تیار کرتا رہا۔ 
نا آشنا لوگوں کے لئے ایک عام آدمی ‘ ایک اسکول ٹیچر اور جاننے والوں کے لیے استادِ فن شاعری۔ قمرسیوانی کے کلام میں زندگی کی رمق بھی ہے اور زندگی کی چمک بھی۔ ان کے شاگردوں کی ایک اچھی تعداد ہے جو شعروسخن میں اپنی شناخت قائم کر چکی ہے۔ 
قمر سیوانی نے اپنے فن اور کمال ِ شاعری سے مجنوں ؔ قبطی، ڈاکٹر انور ؔ سیوانی اور معروف شاعر کوثر سیوانی کی شعری روایات کو آگے بڑھایا اور اردو غزل کی نوک ِپلک درست کیے اور عارض و گیسو سنوارے ۔وہ عوام کے شاعر رہے اور شاعروں میں عوام و خواص کی بے پناہ محبت حاصل کی۔ریڈیو سے ان کے پروگرام  نشر ہوئے داد و تحسین حاصل ہوئی۔ سالوں سال انھیں ریڈیو پر سامعین نے بہت پسند کیا۔پھر بھی اخباروں اور رسالوں سے ان کی غیر حاضری کا سبب جاننا چاہا تو انھوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی ۔پھر میرے اصرار پر جو کچھ کہا وہ آج کی اردو صحافت کا المیہ ہے کہ جہاں چاپلوسی اور حاشیہ برداروں کی بن آتی ہے اور جینوئن فن کار نظر انداز کردیے گئے ہیں۔
بہر حال فن کار تو زندہ رہتا ہے اپنی تخلیق میں ۔لہٰذا قمرؔ سیوانی رسالوں  میں نہ سہی عوام کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں ۔رمضان کے ترانہ ٔ  سحری میں ،اہل تشیع کی محفلوں میں نعت پاک کی متبرک محفلوں میں  ؎
خشک لب پر ہنسی آگئی۔ریت میں زندگی آگئی
اب قدم آگے بڑھتے نہیں ۔شاید ان کی گلی آگئی
ایران و دیگر ممالک میں منقبت کے فکری احساس کی پذیرائی ہوئی    ؎
لکھا تھا خونِ جگر سے یقین تھا مجھ کو ۔جواب خط کا کسی دن ضرور آئے گا
جواب آیا ہے،لکھا ہے انتظار ابھی ۔اندھیرا اور بڑھے گا تو نور آئے گا
بنیادی طور پر قمرؔ صاحب غزلوں کے شاعر ہیںمگر چند نظمیں بھی لکھیں اور کمال کر گئے۔اپنی نظموں میں عظیم انسانوں کی زندگی اور مادرِ وطن سے محبت کو بہت  عقیدت کے ساتھ موضوعِ سخن بنایا اور کامیاب نظمیں تخلیق کیں۔ انھوں نے مہاتما گاندھی اور کیفی اعظمی پر نظمیں لکھیں۔شاعری کے ابتدائی دور میں وہ گاندھی سے متاثر تھے بعد میں فکر کا دائرہ کچھ اور بڑھا ۔وہ گاندھی پر کچھ اس طرح رقم طراز ہوئے    ؎
خلوص کے گیسوؤں کا بل تھا ۔وہ شعرِ اقبالؔ کا بدل تھا 
وہ امن کی جھیل کا کنول تھا ۔ارادہ اس شخص کا اٹل تھا
سماج کا اعتبار بن کر 
دلوں میں اتر ا وہ پیار بن کر
کیفی اعظمیؔ پر ان کا کلا م بھی قابل توجہ ہے:
گیت کو دھن اور غزل کو ساز دے کر وہ گیا۔خامشیٔ زیست کو آواز دے کر وہ گیا
 انقلاب ِ وقت کا آواز دے کر وہ گیا۔مفلسی میں جینے کا اندازدے کر وہ گیا
۱۹۹۹ء میں کارگل جنگ پر شہیدانِ کارگل کے نام نظم میں انھوں نے وطن سے محبت کرنے والے جوانوں کی شہادت کو احترام سے یاد کیا    ؎
بہر شانِ ہند اپنی زندگانی دے گئے۔ وقت کی تاریخ کو سچی کہانی دے گئے
 پرچمِ ہندوستاں کو کامرانی دے گئے۔کارگل کی خاک کو اپنی نشانی دے گئے
قمر ؔ سیوانی ایک فعال شخصیت کا نام ہے جسے ہر لمحہ کچھ کرنے کی تحریک دیتا رہتا ہے۔سیوان میں ’’بزم انور‘‘کی تشکیل میں ان کی اہم شمولیت رہی اور آخر کار اس کے روح ِرواں بن گئے۔ اردو تحریک سے وابستہ رہے۔ اردو داں طبقہ کو ہندی والوں سے جوڑ کر ہندی ادبا و شعرا کو اردو کی طرف مائل کیا۔ اردو اور ہندی میں ان کے شاگرد وں کی فہرست لمبی ہے۔
ٍ قمر ؔ صاحب نے عام آدمی کی زندگی کو شاعری کا مرکز بنایا ۔انسانی زندگی کے روز وشب ،مصیبتوں ،صعوبتوں ،پریشانیوں ،چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنے شعروں میں اتارا   ؎
مجھ سے مسافروں کو ملی دل کی روشنی
میں بھی چراغ شب کی طرح ہو ں جلا ہوا
سب سے کمزور آدمی کا درد یوں بیان کیا ہے   ؎
رات کو سوجاتا ہے فٹ پاتھ پر۔بے پناہ وقت کا آرام دیکھ
متوسط طبقہ کو موضوع سخن بنایا    ؎
اس دور کے نظام میں خوددار آدمی۔باہر سے خوش لباس ہے اندر جلا ہوا
قمرؔ صاحب کے متفرق اشعار ماحول شناسی ،فکر کی بالیدگی اور پختہ ذہنی کی دلیل دیتے ہیں۔ان کی شاعری کے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے کلام کو روایت پسندی ،ترقی پسندی یا جدیدیت کی میزانوں پر پرکھنے کی ضرورت نہیںہے۔وہ زندگی کو جیسے جس روپ میں دیکھتے ہیں رقم کرتے رہتے ہیں ؎ 
صداقت،مروت،محبت شرافت۔نئے دور میں ہیں پرانی کتھائیں
اس زمانے میں گلے ملنے میں خطرہ ہے قمرؔ۔جس سے ملئے دو قدم کا فاصلہ رکھ لیجئے
وہ شخص ہے ناواقف ہر ہاتھ کے پتھر سے۔جو شہر میں نکلا ہے آئینہ لیے گھر سے
انھوں نے سیاست کی ریا کاریوں پر کئی خوبصورت شعر تخلیق کیے ہیں؎
تو ہے سورج تو شام تک چل ساتھ ۔شام سے پہلے ڈوبتا کیوں ہے
چھت پر مری اترتی نہیں دھوپ آج کل۔سورج مرے خلاف کو ئی چال چل گیا
پھر مرے شہر میں نفرت کی گھٹا برسی ہے۔لوگ پھر فصیلِ ِ فسادات اگانے لگے
آج مضراب سیاست نے دکھایا ہے کمال۔ساز ِ نفرت سے محبت کے ترانے نکلے
اہل اقدار و سیاست نے پچھلی صدی میں بار بار فتنہ فساد کا مکروہ کھیل کھیلا۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو پامال کیا اور وہ آج بھی جاری ہے۔ انسانیت ،فساد،جنگ،جہالت،نا برابری اور استحصال کی زد میں کراہ رہی ہے۔ تمام حالات کی تصویر قمرؔ سیوانی کے شعروں میں عیاں ہوتی ہے     ؎
خبر کس کو تھی آنے والی صدی میں۔لہو آدمی کا بہے گا ندی میں
نئی صدی نے بتائی جو نئی تاریخ۔وہ درد سر نہیں ہوجاتے ہر صدی کے لیے
تاریخ کے صفحوںپر کیا جھوٹ رقم ہوگا۔کیا لوگ حقیقت کو افسانہ بنا دیں گے
بس ایک ہی چیز اپنے وطن میں سستی ہے۔بشر کا خون کہیں بھی گراں نہیں ملتا
حیرت ہے مجھے سن کر برسات کے موسم میں
کچھ سوکھے ہوئے پودے پانی کے لیے ترسے
لہو تو چوس لیا ہے میرا امیروںنے۔چراغ کیسے جلاؤں میں روشنی کے لیے
قمرؔ سیوانی کی شاعری میں ادائیگی کی خوبصورتی اور فکری گہرائی ہے۔ ان کی شاعری کے سمندر میں اترنے والے کو نایاب گہر ملتے ہیں ۔زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ بات قاری کے دل و دماغ تک پہنچ کر سیدھے پر دل اثر کرتی ہے ۔ ان کے یہا ں ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اہل ِ زبان ہو کہ ہندی والے بات نکلتی ہے تو سب تک پہنچ جاتی ہے اور یہ چیز قمرؔ کی شاعری کی سب سے خوبصورت شناخت ہے۔ ان کا لہجہ سب سے منفرد ہے۔انداز جداگانہ ہے   ؎
سانس کیسے لیجئے گا شہر کے ماحول میں۔ساتھ اپنے گاؤں کی تازہ ہوا رکھئے
عمر گزری میری اچھے دوستوں کے درمیاں۔میں کتابوں سے ہمیشہ گفتگو کرتا رہا
ٹوٹ کر بھی نہ جھوٹ بولے گا۔آئینے پر یقین کر بابا
قمرؔ سیوانی برسوں سے اپنے قاری اور سامعین سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ رابطہ اور رشتہ سال در سال مضبوط ہوا ہے۔مقامی مشاعروں میں کرسیٔ صدارت ان کی منتظر ہوتی ہے۔محفلیں ان کے بغیر بے معنی اور اداس ہوجاتی ہیں۔وہ بے حد مقبول ہیں ۔مختلف جگہوں پر چرچنا چھپرا بزم ادب حسن پورہ ،انجمن جمہوریت پسند مصنفین سیوان اور چھپرہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں پروگرام کیے اور انھیں نوازا۔وہ آج بھی ادب کی خدمت میں سرگرداں ہیں    ؎
میں نے پھولوں کو خزاں میں بھی نہ مرجھانے دیا
ان کا اپنا خون پلا کر سرخرو کرتا رہا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages