Breaking

Post Top Ad

Tuesday, May 19, 2020

Saal-e-Naw Aur Hamari Zimme Dariyan سا لِ نو اور ہماری ذمہ داریاں

عبدالمتین جامیؔ

                   سا لِ نو اور ہماری ذمہ داریاں          

چلئے جیسے تیسے ایک سال گزر گیا ۔ اڈیشا میںیاد گار بن کر رہ گئی موسلا دھار بارش،طوفان فنی اور دیگر حیرت انگیز قدرتی آفات ۔ہر طرف ماحولیاتی تبدیلی پر  خیال آرائیاں ہونے لگیں۔ہمارے ملک عزیز میں چناؤ کا ڈراما بھی خوب رہا۔ کشمیر سے دفعہ۳۷۰؍کی تنسیخ کے بعد والے سیاسی اتھل پتھل کے علاوہ بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کا ماحول خاصا ہنگامہ خیز رہا ہے۔۔اس تاریخی فیصلے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے گزشتہ ۵۰۰؍ سالہ تاریخی تنازع کا آسان حل نکل آیا ہے۔لیکن رفتہ رفتہ ماحول پھر سے گرمانے لگا ہے۔مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے متنازعہ فیہ بیانا ت نے ایک عجیب صورتحال پیدا کردی ہے۔پتہ نہیں یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔
بہر حال نیا سال سبھوں کو مبارک ہو ۔نئے سال کی تقریب منانے کا یہ سلسلہ بھی خوب ہے۔ در اصل نیا سال انگریزوں کی دین ہے۔ ہندوستان کا نیا سال تو بیساکھ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ تقریب بنگال، پنجاب اور ہریانہ وغیرہ ریاستوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔مسلمانوں کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ۔ ماہِ محرم کی تمام فضیلتوں کو بالائے طاق رکھ کر ،یوم عاشورہ کو فراموش کر کے محرم کے نام سے ماہ کی دسویں تاریخ میں تعزیہ کا جلوس دھوم دھام سے نکلتا ہے برعکس اس کے کہ کربلا میں امام حسینؓ نیز اہلِ بیت کی عظیم شخصیتوں کی قربانیوں کو یاد کیاجایے۔بہر حال پہلی جنوری کو نئے سال کی تقریب مناتے وقت جو طوفانِ بدتمیزی چل پڑتا ہے  ایسے خرافات کی اجازت ہمارے تہواروں میں نہیں ہے۔دراصل ہمارے عوام ذہنی طور پر مغربی ممالک کے غلام ہو گئے ہیں۔سنا جاتا ہے کہ ان ممالک میں سال کے پہلے دن رات کو خوشیاں مناتے ہوئے سڑکی حادثوں میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ہمارے یہاں بھی شہروںمیں خوشیوں کا ماحول رہتا ہے اور ایسی اودھم مچائی جاتی ہے کہ امن پسند انسان رات بھر چین کی نیند کا مزہ نہیں لے سکتے۔بہر کیف افسوس کی بات یہ ہے کہِ سالِ نو میںہر مذہب و ملت کے افراد نیز مسلم نوجوان بھی اپنی نادانی کی بنا پر شامل ہوجاتے ہیں۔ 
اگرنئے سال کا جشن منانا ہی ہے تولوگ خود احتسابی سے کام لے کر یہ سوچیں کہ سالِ گزشتہ میں اپنے وطن یا قوم کے لئے کیا کیا اور کیا نہیں کیا۔آنے والے دنوں میں وہ کیا کریں یا نہ کریں۔اپنا محاسبہ خود کریں اور سوچیں اپنی قوم و ملت کدھر جا رہی ہے۔ اپنی ماؤں اور بہنوں کا کردار کیا ہوتا جارہا ہے ۔ہمارے درمیان صاحبِ ثروت غرباء کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کر رہے ہیں۔اگر صاحبِ ثروت کے بچے انگریزی میڈیم میں پڑھ رہے ہیں تو افلاس زدہ لوگوں کے بچے کیا کر رہے ہیں؟دین و ملت کے بارے میں کس کے پاس فکر ہے؟اپنی مادری زبان نیز اردو کے تحت ان کے دل میں کتنی فکر ہے؟ اپنی زبان اردو سے انھیں کتنی محبت ہے؟  انگریزی پڑھنے والے بچوں میں اردو کو مقبول بنا نے کے لئے ان کے ماں باپ کیا کررہے ہیں۔اگر کسی کو ایک سے زیادہ زبان پر عبورہے تو تعریف کی بات ہے۔اپنی مادری زبان کے ساتھ انگریزی اور دیگر صوبائی زبانوں پر بھی لیاقت حاصل ہو جائے تو برا کیا ہے۔ اگریہ بات نہیں ہوئی تو گویا بچہ خود کو تاریکی کے حوالے کر دے گا۔ ناچیز کا یہی ماننا ہے کہ ہر کوئی خود کو علم کے زیور سے آراستہ کر کے اچھا انسان بنے اوریہ عزم کر لے کہ اسے اس دنیا کو کچھ دینا ہے۔ اپنی قوم کے ماتھے پرلگے ہوئے جہالت کے دھبّے کو مٹانا اس پر فرض ہے۔اپنی مادری زبان اردو کے تئیں اپنے بچوں کے دلوںمیں محبت پیدا کرنا ہر اردو والے پر فرض ہے۔ ورنہ یہ آگے چل کر خود فراموشی کی تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ نہ دین  کے رہیں گے اورنہ ہی دنیا کے ۔آئیے اس نئے سال کے موقع پر بجائے جشن منانے کے ہم عزم کریں کہ مقدور بھر اپنی قوم و ملت، زبان و ثقافت نیز ہندوستانیت کی پہچان کو زندہ رکھنے کا عہد کریں۔ سہ ماہی ادبی محاذ کے اراکین کی جانب سے سبھوں کو نیا سال کی مبارک باد پیش ہے ۔
٭٭٭
Saal-e-Naw Aur Hamari Zimme Dariyan سا لِ نو اور ہماری ذمہ داریاں
Saal-e-Naw Aur Hamari Zimme Dariyan سا لِ نو اور ہماری ذمہ داریاں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages