Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Aarif Hussain Afsar Taruf wa Ghazal

عارف حسین افسرؔ

آج کی نئی نسل کے شعرا میں حوصلہ مندی کے ساتھ حوادث سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ چنانچہ قنوطیت، یاسیت اور حالات کے جبر کے آگے سپر انداز ہونے کی بجائے زمانے سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔کچھ یہی خصوصیات آج کے جواں فکر شاعر عارف حسین افسرؔ صاحب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ ایک حساس طبع اور ملی درد رکھنے والے شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ متعدد بلند پایہ قلمکاروں نے ان کی شاعرانہ ہنر مندیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ڈاکٹر شعائراللہ خاں وجہی صاحب ان کے کلام بلاغت نظام اور اصلا حی نظموں سے کافی متاثر ہیں۔ ڈاکٹر محمد عقیل صاحب کو ان کی شاعری درس آموز محسوس ہوتی ہے ۔ رفیق رضا صاحب رقمطراز ہیں۔’’آپ کی غزل کے اشعارنے مجھے بیحد متاثر کیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘جبکہ چمن بھٹناگر صاحب کو ان کی دوہا غزلیں بیحد پسند ہیں۔
گزشتہ جلدوں میں ان کا سوانحی پس منظر پیش کیا جا چکا ہے۔ صرف اتنا بتا دوں کہ بلند شہر میں ان کی ولادت ۲۶؍فروری ۱۹۶۸ء؁ کو ہوئی۔ B.Sc اور کمپیوٹر انجینر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ دودہائیوں پر محیط ان کی شاعری پروفیسر امجد علی (گلبرگہ) کی رہنمائی میں ارتقا کی طرف گامزن ہے۔ یہاں ان کی ایک دوہاغزل پیش ہے جسمیں معاشرے کی کجروی کو انہوں نے کامیابی سے شعری لباس عطا کیا ہے۔ 
رابطہ۔ 234/2   بڑی مسجد حوض رانی۔ مالویہ نگر۔ نئی دہلی۔  110017

دوہاغزل

خائن کے ہاتھ میں کنجیاں کتنا ہے افسوس 
ڈوبی آس کی کشتیاں کتنا ہے افسوس

نامحرم کے ہاتھ سے بازاروں کے بیچ
عورت پہنے چوڑیاں کتنا ہے افسوس

دجًالی تہذیب کا آیا ہے سیلاب
بہہ گئیں کتنی ہستیاں کتنا ہے افسوس

طلبا عصری علم کے استادوں کے ساتھ
کرتے ہیں دشنا میاں کتنا ہے افسوس

مردوں نے بہادری کردی اپنی ترک 
نام کی ہیں بس پگڑیاں کتنا ہے افسوس

بلوائی نے ملک میں کھیلا ایسا کھیل
تلواروںسے ڈانڈیاں کتنا ہے افسوس

مجرم کو بھی آج کل مجرم کہنے پر
پڑجاتی ہیں بیڑیاں کتنا ہے افسوس

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages