Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Aarif Junaid Taruf wa Ghazal

عارفؔ جنید

آج کی شاعری کو نئی شاعری کہاجاتا ہے جس میں نہ توحسن وعشق جیسے روایتی موضوعات ہوتے ہیں‘نہ ہی ترقی پسندوں کی نعرہ بازی اور نہ جدیدیت کی اہمال پسندی۔آج کی غزل سیدھے سادے لفظوں میںانسان کو درپیش مسائل کاایک بلیغ اشاریہ ہوتی ہے اور اس میں ترسیل وابلاغ کاکوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا ہے۔عارف جنید صاحب کی شاعری کواسی ذیل میں رکھا جاسکتا ہے جس میں سلاست وسادگی کے ساتھ گہرائی وگیرائی بھی ہوتی ہے۔
پورا نام شیخ تاج الدین عارف ہے ۔ادبی حلقوں میں عارف جنید کی شناخت رکھتے ہیں۔والدِ مرحو م کا اسمِ گرامی جناب شیخ ہاشم ہے۔کڈپہ(آندھرا پردیس) میں ان کی ولادت ۱۹۵۹؁ء کو ہوئی۔بی۔اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔سرِ دست محکمۂ مالگزاری میں نائب تحصیلدار کے عہدے پر فائز ہیں۔مشقِ سخن بھی جاری ہے۔۱۹۸۵؁ء میں شعری سفر کا آغازحضرظہیر ناصری کی رہنمائی میں کیا۔ایک مشترکہ شعری مجموعہ’’اعیان‘‘(۱۹۹۳)میں ان کی غزلوں کا انتخاب شامل ہے۔زیرِ نظر غزل ان کے سادہ اسلوب اور بالیدہ شعور کی ترجمانی کرتی ہے۔اس میں طنز کی ہلکی سی کاٹ بھی ہے اور حقائق کا برملا اعتراف بھی۔
رابطہ
۔نائب تحصیلدار‘ محکمۂ مالگزاری۔
دفتر ڈسٹرکٹ کلکٹر۔کڈپہ
  (A.P)516001-

غزل

ہر نظر میں قاتل ہم 
کچھ تو اب ہیں قابل ہم

لکھ کے ڈ یڑھ اور دو غزلیں
شاعروں  میں شامل ہم

آپ کی غلط تشریح 
اور  ٹھہرے جاہل ہم

ہو خلوص جس کے پاس 
بس اسی  کو حاصل ہم

کب بنوگے تم کشتی؟ 
بن چکے ہیں ساحل ہم

یہ ہے اپنی اصلیت 
احمقوں میں عاقل ہم

زہرِ مصلحت عارفؔ
کررہے ہیں زائل ہم

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages