Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Akhtar Banu Naaz Taruf Wa Ghazal

اختر بانو نازؔ

نسائی شاعری میں اختر بانو نازؔ ایک جانا پہچانا نام ہے۔ مقتدر ادبی رسائل مثلاً شب خون ، ذہنِ جدید، قرطاس، تکمیل، نیادور، ادبی دنیا، گلبن، توازن، کتاب نما، انشاء، اسباق، روح ادب،ترسیل، شیرازہ ااور دیگر کئی اہم رسائل میں ان کی نگار شات اکثر و بیشتر زینت بنتی رہتی ہیں ۔ اس طرح ایک خوش فکر شاعرہ کی حیثیت سے ادب کے سنجید حلقوں میں متعارف ہیں۔ ایک مجموعئہ کلام (نام نہیں بتایا) شائع ہو چکا ہے اور دوسرازیرترتیب ہے۔ 
سوانحی کوائف میں انہوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دی ہیں۔ موصولہ جانکاری کے مطابق پورا نام اختر بانو اور نازؔ تخلص ہے خاتون ہونے کے ناطے تاریخ پیدائش مخفی رکھی ہے۔ وہ ایک اعلٰی تعلیم یافتہ خاتون ہیں انگریزی میں ایم اے پی ایچ ڈی کے علا وہ نفسیات اور اردو میں بھی ایم کیا ہے۔ سردست انگریزی کی پروفیسر ہیں اس کتابی سلسلہ کی آئندہ کڑی کیلئے پوری تفصیلات دیں تو انہیں شامل کر لیا جائے گا۔
شاعری کا آغاز زمانئہ طالب علمی سے کیا اور غا لباً اپنے ذوق کو رہبر مان کر شعری سفر پر گامزن ہیں۔ غزل ان کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔ ان کی غزلوں میں نسائی جذبات کی خوبصورت عکاسی کے ساتھ ساتھ عصری حسیت بھی پائی جاتی ہے۔ اپنے فکر و خیال کے چراغ سے وہ لفظوں کو چمکانے کا ہنر بھی جانتی ہیں ۔ زیر نظر غزل رمزیاتی پہلولئے نسائی جذبات و محسو سات کی آئینہ دار ہے۔
رابطہ۔ پوسٹ بکس نمبر 96  ہیڈ پوسٹ آفیس جالنہ ضلع جالنہ۔431203  (مہاراشٹر)

غزل

شیشے ہر سمت یوں لگائے تھے
دھوپ کو اپنے گھر میں لائے تھے

دل میں آتش فشاں بھڑکتا تھا
اس کے شعلوں کو ہم چھپائے تھے

ڈھل گیا کرب آبشاروں میں
اشک آنکھوں سے جو بہائے تھے

اپنی چالیں وہ چل نہیں پایا
اس کے مہرے پٹے پٹائے تھے

میری پلکوں پہ دیپ کی صورت
سائے یادوں کے جگمگائے تھے 

وہ ہمیں مل نہیں سکا ابتک
جس کی یادوں کو ہم بسائے تھے

نازؔ پربت کا کاٹ کے سینہ
راستے ہم نے خود بنائے تھے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages