Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Akhtar Kadpavi Taruf Wa Ghazal

اخترؔ کڈپوی

اردو کی مرکز گریزیت کے سبب دبستانِ دلی اور دبستانِ لکھنٔو تو نہیں رہے مگر ان کی جگہ اوردوسرے  دبستان  معرضِ وجود میں آچکے ہیں جن میں آندھرا پر دیش کا شہر کڈپہ بھی شامل ہے جہاں شاعروں اور ادیبوں کی ایک کہکشاں اپنے اجالوں سے پوری اردو دنیا کو فیض پہنچا رہی ہے۔اسی کہکشاںکا ایک روشن ستارہ ہیں جناب اخترؔ کڈپوی جن کی غزلوں میں اگر غمِ جاناں کی کسک ہے توغمِ دوراں کی تڑپ بھی پائی جاتی ہے۔
اصل نام شیخ عطا اللہ ہے اور اختر کڈپوی ان کی شعری شناخت۔والد محترم کا اسم گرامی جناب شیخ محمد اسماعیل ہے۔ کڈپہ ( آندھرا پردیش)میں ان کی ولادت ۱۹۵۷ء؁ کو ہوئی۔ تعلیم واجبی ہونے کے باوجود مشق ومطالعہ سے شاعری میں خاصی پیش رفت کرلی ہے۔ نجی کا روبار کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری ہے۔ حضرت برق کڈپوی اور جناب عبید صدیقی چنوری کی رہنمائی میں ۱۹۷۶ء؁سے شعری سفر پر گامزن ہیں اور ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ زیر نظر غزل میں راویتی علائم کو انہوں نے نئے مفاہیم سے آشنا کرنے کی عمدہ کو شش کی ہے۔
رابطہ۔ شیخ عطااللہ اخترؔ۔5-128بنی کوٹا۔ کڈپہ۔516003(آندھرا پردیش)

غزل
وہ دل ہی کیا ہے جس میں ذرا رنج و غم نہیں
وہ آنکھ کیا ہے جو کہ کسی غم سے نم نہیں

آرام سے گزرتی ہے اب میری زندگی
بس ایک تیرے غم کے سوا کوئی غم نہیں

کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرا حالِ گلستاں
اپنی خزاں بہار کے موسم سے کم نہیں 

اک آدمی ہوں میں تو فرشتہ نہیں کوئی 
میں جھوٹ کیسے بولوں مجھے رنج وغم نہیں

آآکے لوگ پوچھتے ہیں میری خیریت
میرا جنون حسنِ خود آراء سے کم نہیں

انسانیت کا ہم کو سبق دین سے ملا
دیواریں نفرتوں کی اٹھائیں‘ وہ ہم نہیں

آجائو اب ہمارے گلے سے گلے ملو
اخترؔ خوشی ہے عید کی اور آج غم نہیں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages