Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Aman Zakheerawi Taruf wa Ghazal

امان ؔذخیروی

آج کی نئی شاعری کا طرۂ امتیازسلاست وسادگی ہے جس میں عرفانِ ذات اور سماجی شعور کو خطیبانہ انداز کی بجائے بیانیہ یا خود کلامی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔امانؔ ذخیروی صاحب نئی نسل کے تازہ کار شاعر ہیں اور شعری سفر ۱۹۸۵؁ء میں اس وقت شروع کیا جب نئی شاعری برگ وبار لاچکی تھی۔چناچہ ان کی شاعری میں زبان وبیان کی سادگی کے ساتھ عرفانِ ذات اور سماجی شعور کے نقوش روشن نظر آتے ہیں ۔
پورا نام امان اللہ خاں ہے اور قلمی نام امان ذخیروی۔والدِ بزرگوار کا اسمِ گرامی جناب سعد اللہ خاں ہے۔پریم ڈیہا۔لکھی سرائے(بہار) میں ولادت۲؍مئی۱۹۷۵؁ء کو ہوئی۔لیکن آبائی وطن ذخیرہ(بہار) ہے۔ایم۔اے‘ بی۔ایڈ کرنے کے بعد درس وتدریس کا تعمیری فریضہ انجام دے رہے ہیں۔شاعری کا شوق طالبعلمی کے دور سے رہا ہے۔اقبال‘غالب‘سردار جعفری اور کلیم عاجز ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔مختلف رسائل میں اشاعتِ کلام کا سلسلہ جاری ہے۔زیرِنظر غزل ان کے تجربات ومشاہدات کی آئینہ دار ہے۔عرفانِ ذات کی بھٹی سے باہر نکل کر بکھرے ہوئے مناظر پر نظر ڈالتے ہیں تومعاشرے کی ناہمواریاں انہیں دعوتِ فکر دیتی ہیں۔ ان کے حل کے لئے وہ خود احتسابی سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔
رابطہ۔
پریم ڈیہا۔ڈاکخانہ محی الدین نگر۔وایا سکندرہ۔ضلع لکھی سرائے ۔
 811315

(بہار) 

غزل
پیاس کی شدت کا اندازہ سمندر سے نہ پوچھ 
حسرتِ تعمیر قسمت کے سکندر سے نہ پوچھ

خود سمجھ لے کس طرح ہوتی ہے پیدا یہ مٹھاس
جذبۂ ایثار گنّے سے چقندر سے نہ پوچھ

مجھ کو کیا معلوم کیا ہوتی ہے بزمِ خیر وشر
کم سے کم یہ رسمِ دنیا تو قلندر سے نہ پوچھ

داستانِ ظلم واستبداد چاہے پوچھ لے 
قصۂ مہر ووفالیکن ستم گر سے نہ پوچھ

کس لیئے قلب وجگر کو خوں چکاں کرتا ہے وہ 
 ہاں سخن سے پوچھ لے ہرگز سخنور سے نہ پوچھ

دل کی گہرائی میں خود غوطہ لگا کر ڈھونڈ لے
اے اماںؔ اس کا پتہ مسجد سے مندر سے نہ پوچھ


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages