Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Dr Mohammed Rafi Ahmed Taruf Wa Ghazal

ڈاکٹر محمد رفیع ؔاحمد

آج کی غزلیہ شاعری میں تعمیریت کے پہلو بہ پہلو فکر اسلامی کے روشن خطوط واضح نظر آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں نئی نسل کے شعرا کی کاوشیں لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے اسلامی قدروں اور صتحمند روایات کی باز یافت کو اپنا شعار بنایا ہے۔ ایسے ہی شعرا میں ڈاکٹر رفیع احمد صاحب ایک صالح فکر اور تعمیری سوچ کے شاعر کی حیثیت سے اپنی شاعرانہ ہنر مندیوں کا ثبوت پیش کررہے ہیں 
ادبی دنیا میں اصل نام ہی سے معروف ہیں والد مرحوم کا اسم گرامی جناب محمد سلیم ہے۔ کلکتہ میں ۶؍ جنوری ۱۹۶۰ء؁ کو پیدا ہوئے۔ ہومیو پیتھی میں بی ایچ ایم ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس اور طبی خدمات کے ذریعہ تعمیری کردارادا کر رہے ہیں۔ ادبی سفر کا آغاز ۱۹۷۶ء؁ سے کیا۔ پہلے ڈاکٹر نظام الدین نظام صاحب سے اصلاح لی۔ ان کی موت کے بعد حضرت قیصر شمیم صاحب سے وابستہ ہیں ۔ شاعری اور نثر نگاری پر یکساں قدرت حاصل ہے اورہر دو میدان میں انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ اب ان کی شہرت کی خوشبو مغربی بنگال کی حدود پار کرکے پوری اردو دنیا کو مہکا رہی ہے۔ سائنس طب‘ صحت اور علاج سے متعلق اردو اور انگریزی میں چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں ابتدائی جماعتوں کیلئے زریں اردو کے نام سے ان کی درسی کتابیں بھی مقبول ہیں۔ سہ ما ہی دیار حبیب کی ادارت بھی سبنھالے ہوئے ہیں۔ ریڈکراس، ہو میوپیتھی اور انڈین سائنس کانگریس جیسے اداروں کے لائف ممبر ہیں۔ ایشین اور امریکن ہواز ہو میں ان کی سوانح حیات بھی شائع ہو چکی ہے اور طبی وادبی خدمات کے صلہ میں اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کی غزلیں جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہے مثبت قدروں اور تعمیری جذبوں کے ساتھ ساتھ عصری معنویت سے بھی ہمکنار ہیں۔ زیر نظر غزل ان کی تعمیری سوچ اور فکر اسلامی کا روشن اشاریہ ہے۔
رابطہ۔
 13/1/H/2
پٹوار بگان لین۔ سکنڈ فلور
۔ 
کولکاتا۔
( W.B ) 700009
غزل
سفر حیات کا ہر پل طویل ہے کہ نہیں 
یہ موت جیسی ہی کوئی سبیل ہے کہ نہیں 

ہے طرز فکر وعمل کا وہی ‘جو پہلے تھا 
ہماری قوم ہی اب تک علیل ہے کہ نہیں

تھے ماتحت کبھی جس قوم کے جہاں میں سبھی
وہ قوم آج جہاں میں ذلیل ہے کہ نہیں

وجود رب کا جو پوچھوگے تو کہوں گا یہی
کلام پاک ہی اس کی دلیل ہے کہ نہیں

رہ جہاد میں جس نے بھی جاں گنوادی ہو
وہ شخص اپنی وفا کا قتیل ہے کہ نہیں 

کرے جو فیصلہ کوئی تو بس خیال رہے
کہ وہ عمر کی طرح کا عدیل ہے کہ نہیں 

خدانے دولت کردار سے نوازاہے
مگر رفیعؔ یہ نعمت قلیل ہے کہ نہیں


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages