Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Ek Shayer Ek Ghazal No 4 Par Ek Belag Tabsara

ایک شاعر ایک غزل نمبر ۴ پر ایک بے لاگ تبصرہ
مبصر :ڈاکٹر اقبال خسرو قادری

کسی بھی اہم کام کی تکمیل کے لئے صرف شوق کی نہیں بلکہ ایسی لگن کی ضرورت ہو تی ہے جسکی سر حد یں جنوں سے ملتی ہوں۔’’ایک شاعر ایک غزل (۴)‘‘محترم سعید رحمانی کے اسی جنون سخن پروری کا ثمر ہے ۔غزل گو شعراء کا یہ تعارفی سلسلہ اب اپنی شنا خت مستحکم کر تا جا رہا ہے۔اس راہ خاردار میں صبر آزما مقام آتے ہیں،نا چیز ان سے واقف ہے۔لیکن:
اسی طرح تو ہو تا ہے اس طرح کے کاموں میں 
سعید رحمانی صاحب نے عرض حال کے تحت یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ہر شاعر کا محتصر ساتعارف اور ایک دو اہم نکات کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے منتخبہ غزل پیش کر نا ہی اس کتاب کا مقصد ہے۔تذکرہ نگا ری یا تنقیدی مدعا نہیں۔یہاں انفرادی خو بیوں اور شعری محاسن و معائب کا جا ئزہ مشکل ہے۔پھر بھی اپنے مختصر سے تبصرے میں سعید رحمانی نے ہر شا عر کا اچھا تعا رف کر وایا ہے ۔کتاب میں شا مل شعراء سعید رحمانی کے الفاظ میں ’’مہمان‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں۔ظاہری سی بات ہے کہ مہما نوں کا تعارف کرا تے وقت ان کے محاسن پرہی رو شنی ڈالی جا تی ہے۔چلئے آبگینوں کی آبر وسلا مت رہ گئی۔
’’حرف خیر‘‘میں رئوف خیر صاحب نے ساگر میں اترے بغیر گاگر میں ساگر سمو نے کی کرامت دکھائی ہے۔حمد(پروفیسر محمد علی اثر)اور دو نعتیں (ڈاکٹر راحت سلطانی،فر حت حسین خوشدل)مبارک و مسعود آغاز کی علا مت ہیں۔چمن بھٹنا گر (پیدائش ۱۹۲۵ء)سے نغمہ نور (پیدائش ۱۹۸۶ء)تک ،ساٹھ برس کے عر صے میں اس دنیا ئے آب وگل میں وارد ہو نے کے بعد اردو غزل کی آب و تاب میں اضا فہ کی مخلصانہ کا وش کر نے والے ۸۰؍شعرا و شاعرات اس کتاب کی زینت ہیں۔اکابرین شعر و سخن بھی شامل ہیں اور نو واردان اقلیم سخن بھی ۔تفصیلی جا ئزہ طویل مضمون کا متقاضی ہے ۔نہا یت ادب کے ساتھ اپنی علمی و فنی بے بضا عتی کا اعتراف کر تے ہو ئے ،جان کی امان پا ئوں تو کچھ عرض کر نے کی کو شش کروں!
سب سے پہلی بات تو یہ محسوس ہو ئی کہ’’تازہ واردان بساط ہوائے دل‘‘کے کلام میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے ’’تازگی‘‘۔فنی،عروضی اغلاط یا زبان و بیان کے اسقام ایک طرف ،زنبیل بھر غزلوں میں سے مٹھی بھر جدت فکر و فن بھی ہاتھ نہیں آتی۔ذرا سی امید ضرور بندھتی ہے کہ مستقبل قریب میں خوشگوار نتا ئج ضرور حاصل ہو ں گے۔
محترمی کرامت علی کرامت کی غزل سرمۂ نظر ہے:
سجاہے گل کدۂ صبح و شام کس کے لئے
وہ کون آئے گا؟ یہ اہتمام کس کے لئے 
مصر عۂ ثانی میں ’’وہ کھٹکتا ہے۔ہم جیسوں کے لئے جائز ہو اور وہ بھی مکر وہ تحریمی کی مد میں لیکن کرامت صاحب کے لئے؟
اسی غزل کا آخری شعر ہے:
یہ میں نے مان لیا آم ان کا حصہ ہے
تو پھر بتا ئیے گٹھلی کا دام کس کے لئے
پہلی نظر میں لگا کہ’’گٹھلی کا دام ‘‘خلاف محا ورہ ہے ۔’’گٹھلی کے دام‘‘ہو نا چا ہئے تھا۔ذرا تا مل کے بعد یہ بھی محسوس ہوا کہ’’دام‘‘اگر ’’جال‘‘کے معنی میں ہے تو شعر میں معنی کی ایک نئی پرت کھلتی ہے۔یا پھر ہو سکتا ہے یہ سب پروف ریڈنگ کی غلطی ہو اور’’کے دام‘‘کی جگہ’’کا دام‘‘چھپ گیا ہو۔بہر حال جائے استاد خالی است!
ضرر وصفی صاحب کی غزل کے مطلع میں مصرعۂ ثانی ساقط الوزن ہے:
سمندر چپ جزیزہ بو لتا ہے
کئی طو فانوں کا قصہ بو لتا ہے
ہو سکتا ہے کمپو زر نے ضررو صفی کو نو مشق شاعر سمجھتے ہو ئے اپنی طر ف سے اصلاح فر ما دی ہو اور اس طرح’’گئے طو فاں‘‘کی جگہ’’کئی طو فانوں ‘‘کا بر پا ہو نا عین ممکن ہے۔پھر بھی اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ یہان’’قصہ سنا نے‘‘کا محل ہے’’قصہ بو لنے ‘‘کا نہیں ۔ردیف کی مجبو ری کا منہ بو لتا ثبوت اسی کو کہتے ہیں۔
پرو فیسر عر فان صدیقی نے اپنی غزل کے ایک شعر میں فر ما یا کہ معنی و لفظ میں حجا بات حائل نہیں ہو نے چا ہئیں:
شبنم غنچہ دہن کو نہ ستا ئو لو گو
تم میں جرأ ت ہو تو آزر سے سوالات کرو
شبنم خو شۂ انگور کے پینے والو
خو د کو بھی چکھو کبھی ذائقہ ذات کرو
بقول آں محترم،سہل کہنا اور دشوار کہنا دو نوں ہی حجاب ہیں۔تو کیا اس بیان کے پیش نظر محو لہ بالا اشعار کی قدر و قیمت واضح ہو تی ہے؟
ڈاکٹر یو سف گو ہر کی غزل کے بارے میں سعید رحمانی رقم طراز ہیں:’’ان کی زیر نظر غزل آج کے سلگتے منظروں کا ایک بلیغ اشا ریہ ہے۔‘‘
میں اتنا اضافہ کر نا چو ہوں گا کہ یہ غزل ایک معصوم نعر ے با زی بھی ہے۔
حامد لطیف صاحب کی غزل کا پہلا شعر ہے:
تم بھی کر سکتے ہو پھر اوج ثر یا پہ قیام
رکھو نہ طاق پہ جز دان میں سجا کے مجھے
پہلا مصرعہ’’فا علا تن فعلا تن فعلا تن فعلان‘‘اور دوسرا مصرعہ ’’مفا علن فعلا تن مفا علن فعلن‘‘پر کہا گیا ہے۔ایں چہ بو العجبی است؟
محترم حسن رہبر صاحب فر ما تے ہیں:
وہ بیچ کر ضمیر کو بد نام ہو گیا 
تخلیق اس کی شہر میں شہکار ہو گئی
جب وہ نا لائق فن کا ر اپنے ضمیر کو بیچ کر بد نام بھی ہو گیا تو پھر اس کی تخلیق کو شہر والوں نے شہکار کا درجہ کیسے دے دیا؟ایسی بلندی ایسی پستی؟
شمیم یو سفی صاحب کے مندرجہ اشعار’’صنعت دو لخت‘‘کی مثال تو نہیں؟
لازم تو نہیں بر سر پیکار تو آئے
دل ہے تو ذرا لذت آزار بھی آئے
کچھ پا ئوں کے چھا لوں نے بھگو ئے ہیں مرے لب
ہم لے کے تما شہ سر بازار بھی آئے
اس پر مستز اد مو خر الذ کر شعر میں شتر گر بہ کا ’’حسن‘‘بھی مو جو د ہے۔
حشمت کمال پا شا ارشا د فر ما تے ہیں:
امی نے جب بھی مانگا ہے بازار کا حساب
دکھلا دیا صفر انہیں ہم نے جواب میں
’’صفر ‘‘برو زن’’سفر‘‘باندھا گیا ہے جب کہ بروزن’’فکر‘‘صحیح ہے۔ویسے بھی کمال پاشا کے کلام میں بقول سعید رحمانی’’مزاح کا ہلکا سارنگ بھی شامل ہے جس سے بچے بو ڑھے یکساں محظوظ ہو سکتے ہیں۔’’اور ایسی چھو ٹی مو ٹی خامیاں آرام سے شعر میں کھپا ئی جا سکتی ہیں۔
حنیف ساحل کی غزل کا پہلا شعر ہے:
دھوپ میں کو ئی مسافر کے لئے
را ستے میں کھڑے شجر رکھنا
پہلا مصرعہ’’فاعلا تن فعلا تن فعلن‘‘پر ہے دو سرا مصرعہ ’’فا علا تن مفا علن فعلن‘‘کے وزن پر ہے۔
رفیق رضا صاحب جیسے کہنہ مشق شاعر کے ہاں’’دنیا ‘‘کے ’’الف‘‘کا سقوط جا ئز ٹہر ے تو کیا کہا جا سکتا ہے؟
ہر شخص کی ہے دنیا میں شہرت جدا جدا 
مذکو رہ مصرعہ میں متبا دل لفظ’’دہر‘‘کے استعمال سے یہ سقم دور کیا جا سکتا تھا۔اسی طرح محسن عر فی صاحب کی غزل میں:
فر ماں بر داروں سے لطف خدمت ملے
کی خوا ہش تو کی گئی ہے مگر بے چا رے’فر ماں بر داروں‘‘کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔پھر آپ لطف خدمت کی خواہش کیسے رکھ سکتے ہیں؟اسی غزل میں مصرعہ
عقل سے بھینس کس نے بڑی کہہ دیا
تعقید لفظی کی عمدہ مثال ہے   
Feminism،نسائیت یا تا نیتی شا عری کا مطلب آج کل صرف یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شا عرہ محترمہ اپنے اشعار میں کچے پکے عشق کے راگ الاپے،ساجن کی بے وفائیوں اور اس کے مقابلے میں اپنی بلند ظر فی اور دریا دلی کا مظاہرہ فر مائے ،مگر صاحب،یہ سب کچھ تو ریختہ میں بھی وافر مقدار میں مل جا تا ہے پھر یہ جدید تا نیثیت ہے کیا چیز؟میرے خیال میں حیات و کا ئنات کے مسائل پر صنف نا زک کے نکتۂ نظر کا بے لاگ لیکن مہذب اظہار ہی تا نیثی شا عری کا صحیح تعارف اور تعریف ہے اور یہ چیز جس بے باکی اور جرأت کا تقاضہ کر تی ہے اکثر شاعرات اس سے محروم ہیں۔پھر یہ بھی ہے ہر کسی کا ادا جعفری،فہمیدہ ریا ض وغیرہ سے تقابل کر نا درست بھی نہیں۔(پروین شاکر کا عمد أ ذکر نہیں کر رہا ہوں کہ مو صوفہ کی تمام تر مقبولیت کے با و جود ان کی بیش تر شا عری تا نیثیت کا بڑا محدود تصور پیش کر تی ہے۔)پھر بھی اس کتاب میں شامل شا عرات کا کلام غنیمت ہے،اس لئے بھی کہ کئی با وقار نام اس انتخاب میں
 مو جود ہیں۔جن کے ہاں تا نیثی شا عری فیشن کے طور پر نہیں اپنا ئی گئی ہے ۔محترمہ صفیہ راگ علوی اور مینا نقوی کے دو شعر نذر ہیں:
با نہوں میں آکاش بھرا ہے دھرتی پائوں سے لپٹی ہے
قید ہیں دو نوں عالم اس کی کیف بھری انگڑائی میں
بلند یوں کے سفر میں جو تھا وہ پستیوں سے گزر رہا ہے
تمام دن کاسلگتا سو رج سمندروں میں اتر رہا ہے
اس کتاب میں سید شکیل دسنوی کی ’’گیت غزل‘‘بھی شا مل ہے۔آزاد غزل سے لے کر گیت غزل یادو ہا غزل یا کوئی اور غزل،تمام کے تمام صرف تجربے ہی تجربے ہیں۔اور غزل بے چا ری اتنی سخت جان ہے کہ اس چیر پھاڑ کے با و جود آج بھی زندہ ہے۔آج تک تو آزاد غزل کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔یہ دو سری قسم کی غزلیں لشتم پشتم کہاں تک چل سکیں گی،یہ دیکھنا ہے۔اگر غزل میں دم ہے تو اس کے لئے گیت یا دو ہا کی بیسا کھیاں چنداں ضروری نہیں ۔یہ دیکھئے کہ اس تجرباتی غزل میں کو نسی نئی بات کہی گئی ہے جو غزل کے روا یتی فا رم میں ممکن نہیں؟الّا یہ کہ ہندی الفاظ’’جو را جو ری‘‘کر تے ہو ئے ٹھو نسے گئے ہیں۔خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔
ہر شاعر کے نزدیک اس کی ہر تخلیق بہترین،بہت اچھی یا کم از کم اچھی ضرور ہو تی ہے۔آپ ہو ں یا میں یا کوئی اور اس سے مبرا نہیں۔اس کتاب میں شا مل شعرائے کرام کی غزلیں بھی اپنی اپنی جگہ منتخب ہو ں گی اس سے انکار نہیں ۔کچھ اشعار آپ کی نذر ہیں:
آخری بات یہ عر ض کر دو ں کہ اس محفل غزل کی سب سے اہم خصو صیت یہ رہی کہ اسّی غزل گو شعرا منہ دیکھتے رہ گئے اور نا ظم مشا عرہ سعید رحمانی نے مشا عرہ لو ٹ لیا۔ستم بالائے ستم ایک غزل تو کیا آدھا شعر بھی ارشاد نہیں فر ما یا۔تمام شعراء کی اور میری طرف سے دلی مبارکباد!ہم جیسے چھٹ بھئے لاکھ مین میخ نکالیں یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ سعید رحمانی جو خدمت انجام دے رہے ہیں اسے ادب کی تا ریخ فرا موش نہیں کر سکے گی۔
جو شعرائے کرام اس کتابی سلسلے میں شامل ہو نے کے خواہش مند ہیں کتاب کی پیشگی قیمت ۔۱۲۵ ؍رو پے (مع رجسٹری ڈاک خرچ )،اپنا سوانحی خاکہ،ایک منتخب غزل اور ایک عدد تصویر سعید رحمانی صاحب کے پتے پر روانہ فر ما ئیں۔اس کتابی سلسلے کی پانچویں کڑی جلد شا ئع ہو نے جا رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages