Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Gulam Dastageer Sharar Taruf wa Ghazal

غلام دستیگر شررؔ

نئے الفیہ کے آغاز سے جو شعرا ادبی منظر نامہ میں ابھر کر سامنے آئے ہیں ان میں عصری شعور زیادہ نمایاں نظر آتا ہے انہیں حیات وکائنات کے اسرار و رموز کا درک بھی ہے اور اس کے نشیب و فراز سے بھی پوری آشنائی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی تازہ کار شعر ا میں غلام دستیگر شررؔ تیزی سے ابھرتا ہوا ایک نام ہے۔ شررؔ تخلص فرماتے ہیں ۔ بھوپال میں ان کی ولادت ۲۸؍اکتوبر ۱۹۴۳ء؁ کو ہوئی۔ اے جی گریڈ۔ ون کے عہدے سے حسنِ خدمت پروـظیفہ یاب ہو چکے ہیں اور اب فراغت کے لمحوں میں زبان و ادب کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے۔
شاعری کی ابتدا ۲۰۰۳ء؁ میں کی۔ عہد حاضر کے معروف و معتبر شاعر جناب شفق تنویرؔ سے شرف تلمذ حاصل ہے اور ان کی شاعری بتدریج ارتقائی منازل طے کرنے لگی ہے۔ابتک متعددرسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں جن میں سے چند کے نام ہیں۔شاعر،فنون، بیسویں صدی، انتساب، صوفی ٹائم صدائے اردو۔شاعری میں غزل ہی ان کی پسندیدہ صنف ہے۔ ان کی غزلیں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ ان کی زیر نظر غزل انسان کی نفسیات اور اس کے مجروح جذبات کے ساتھ نسلی منافرت اور اقداری شکست وریخت کی آئینہ دار ہے۔
رابطہ۔197-Bتلک ہائو سنگ سوسائیٹی۔ اندر وہار کالونی۔ ایر پورٹ روڈ ،  نزد فیض مسجد۔ بھوپال۔462032(ایم پی)

ہمیشہ دور رہا میں تو بس اسی ڈر سے 
چبھیں نہ خار کہیں ہاتھوں میں گل تر سے

یہ قتل و خون، یہ جلتے مکاں کے منظر سے
میں لمحہ لمحہ سلگتا رہا ہوں اندر سے

جلا بھی سکتی ہے گھر کو کسی کی شعلہ نظر 
کھلی فضا میں رہا ہوں تو بس اسی ڈرسے 

یہ سنگ وسر کا تو رشتہ ہے آج بھی قائم
کسی طرح نہ گیا یہ جنوں مرے سر سے 

بھٹک رہا ہوں عقیدت کی خانقاہوں میں
ملا نہ دل کو سکوں آج تک کسی در سے 

اسے خبر نہیں جانے وہ کس کے ہاتھ لگے
پتنگ خوف زدہ ہے ہوائے صرصر سے

کسے خبر تھی جواں ہو کے یہ مرے بچے
سمجھ کے کوڑا مجھے پھینک دینگے یوں گھر سے

ہزار ہم نے ثبوتِ وفا دئے ہیں شررؔ
مگر گیا نہیں الزام جو لگا سرسے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages