Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Habeeb Saifi Aaghapuri Taruf wa Ghazal

حبیب ؔسیفی آغاپوری

نئی نسل کے تازہ کارشاعروں میں حبیب سیفی آغاپوری صاحب کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ ۹۰؍کی دہائی میں شعری سفر کا آغاز کر کے ایک قلیل مدت کے اندر انہوں نے اپنی شاعری میں بصیرت وبصارت کے چراغ جس انداز سے روشن کئے ہیں اس کی نظیر بہت کم دیکھنے کوملتی ہے۔ ان کی شعری بصیرتوں کا برملا اعتراف آج کی بیسوں ذی وقار شخصیتوں نے کیا ہے۔ صرف چند کی آراپیش خدمت ہیں۔ نامور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی صاحب فرماتے ہیں۔ ’’دراصل قاری کے احساس و ضمیر کو مر تعش کرنا بہت بڑی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ اس مقصد میں کا میاب ہوتے نظر آتے ہیں الحاج ظہیر غازیپوری، حضرت کرشن کمار طور اور ڈاکٹر انصاری ان کے عمدہ اشعار، فکری بالغ نظری عصری شاعری کے معترف ہیں۔ اگر سبھی مشاہیر ادب کا صرف نام ہی لکھوں تو نصف صفحہ بھی کم پڑے گا۔ معذرت کے ساتھ ان ناموں سے صرف نظر کرتے ہوئے اتنا عرض کروں گا کہ حبیب سیفی صاحب کی شاعری کی عمر کم سہی لیکن انہوں نے جس صلابت فکری اور فنکارانہ مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ بلا شبہہ لائق تحسین ہے 
گزشتہ جلدوں میں سوانحی پس منظر پیش کیا جا چکا ہے۔ پھر بھی اتنا بتادوں کہ والد ماجد کا اسم گرامی جناب محمد اختر سیفی ہے۔آغا پور ضلع امروہہ میں ولادت ۴؍جنوری ۱۹۷۵ء؁ کو ہوئی۔ اس وقت دہلی میں نجی  کاروبار سے وابستہ ہیں۔ زیر نظر غزل سے ان کے عصری شعور، صالح فکری اور شعری رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
رابطہ۔ 
 E-12/51-B
حوض رانی۔ مالویہ نگر۔ نئی دہلی۔
  110017
غزل
میں نفس کا احترام کرکے بھی آس رب سے لگا رہاہوں
ہے جس پہ مٹنا مرا یقینی اسی روش پر میں جارہاہوں

بموں کی بارش وہ کر رہا ہے یہ فصل حق ہے پنپ رہی ہے 
اسے مٹا نے کی ضد ہے لیکن میں ہوں کہ پھر لہلہا رہا ہوں

جدا شجر سے ہے شاخ زیتون فاختہ بھی ہوئی ہے گھائل 
میں امن کے نام پر اگر چہ کبوتروں کو اڑارہاہوں

اگر وہ لفظوں کی خو کو سمجھے‘تو میں بھی سمجھوں‘ سمجھ ہے اسکو 
ہے مصلحت کا تقاضہ یہ بھی جو جھوٹ میں سچ چھپا رہا ہوں

اجا لا قائم رہے گا ہر سو‘ جہاں سے جائے گی تیرگی اب
میں اپنے حصہ کی سرز میں پر وہ چاند سورج اگا رہا ہوں

خیال میرا نہ فکر میری ‘ نہ طرزمیری‘ سخن نہ میرا 
جدیدیت کا میں نام لیکر غزل سے رشتہ بنارہا ہوں

یہ بات ہے اور کہ داغ جیسی غزل کا لکھنا نہیں ہے آساں 
میں عصر حاضر کے کچھ تقاضے بخوبی لیکن نبھا رہا ہوں

کسی خوشی کا بھی ذائقہ ہو پہ ذہن و دل تک نہیں پہنچتا 
تمہارے وعدوں کا تو خوشی سے فریب لیکن میں کھا رہا ہوں

مری حماقت تو دیکھے کوئی مفا علاتن کی رٹ کے تختی 
مزار غالب کے پاس آکر میں خود کو شاعر بتا رہا ہوں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages