Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Hasan Sahoo Taruf Aur Ghazal

حسن ساہوؔ

وادیٔ کشمیر جس کو جنتِ ارضی بھی کہتے ہیںاب وہاں کی برفیلی وادیاں شعلے اگل رہی ہیں۔اس بات سے کوئی بھی فنکار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااور اگر شاعر ہے اور اسی و ادی کا باسی ہے تواس کی شاعری میں شعوری یا غیر شعوری طور پراس دلخراش صورتحال کا حوالہ کوئی انوکھی بات نہیں ۔کہیں کہیں راست تو کہیں کہیں استعاروں‘کنایوں میں کشمیر کی فریاد ضرور سنائی دیتی ہے   ۔حسن ساہو صاحب کاتعلق اسی جنت نظیر خطہ سے  ہے اور ان کی شاعری میںکشمیر کا دل دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔وہ ایک ہمہ جہت قلمکار ہیں۔ادیب شاعر‘ افسانہ نگار اور صحافی کی حیثیت سے  ان کی شناخت مستحکم ہے۔
اصل نام غلام حسن بٹ ہے اور ادبی پہچان حسن ساہو۔مگر اپنے ادبی سفر کا آغاز شش وپنج کشمیری کے نام  سے کیا تھا۔سری نگر میں ولادت ۱۷؍اکتوبر کو ہوئی۔بی۔اے اور فاضل پاس ہیں۔محکمہ بر قیات میں  اعلیٰ عہد  ے پر فائز رہے۔سبکدوشی کے بعد۱۹۹۳؁ء  سے  ہفت روزہ درون کا اجرا کیا جو آج بھی جاری ہے۔صحافتی خدمات پر انہیں ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔تین افسانوی مجموعے پھول کا ماتم ‘بستی بستی صحرا صحرا اور اندھا کنواںشائع ہوکر  پزیرائی حاصل کرچکے ہیں۔چوتھا مجموعہ گردشِ دوراں زیرِ ترتیب ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر وہ افسانہ نگار ہیںمگر شاعری میں بھی انفرادیت رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں میںوقت کی دھڑکنیں بھی ہیں اور سرد وگرم لمحوں کی تمازت بھی جو ان کے شعلہ ٔتکلم کوسرخی اور التہاب سے آشنا کرتی ہے۔زیرِ نظر غزل کی زبان سادہ وسلیس ہوتے ہوئے بھی گہرائی وگیرائی کی حامل ہے۔لفظوںکے درون  میں اترئیے تووادی کی مایوس کن صورتحال کا سامنا ہوتا ہے
رابطہ:۔معرفت کلّو واچ ہائوس۔بالمقابل ہنومان مندر۔امیرا کدل۔سری نگر۔190001 (کشمیر)
غزل

اداس ہے شمع دان اپنا
پڑا ہے خالی مکان اپنا

ہوا کچھ اس طرح  چلی ہے
اکھڑ گیا سائبان اپنا

ابھی تو آنکھوں کے سامنے تھا
کہاں گیا نوجوان اپنا

کوئی یہاں ہے کوئی وہاں ہے
بٹا ہے یوں خاندان اپنا

سفینہ کیوں ڈوبنے لگا ہے
کہاں گیا بادبان اپنا

لبوں پہ تالے پڑے ہوئے ہیں
دھواں دھواں ہے مکان اپنا

تلاش جاری رہے تو ساہوؔ
ملے گا آخر نشان اپنا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages