Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Hubab Hashmi Taruf wa Ghazal

حباب ؔہاشمی

ہم نے سمجھا ہے بہر حال زمانے کا مزاج
کیا ملائیگی نظر گردشِ دوراں ہم سے
محولہ بالا شعر سے صاف ظاہر ہے کہ حبا ب ہاشمی صاحب بے رحم حالات کی سفاکیوں کے آگے سپر انداز نہ ہوکرآنکھیں ملاکر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنے پچاس سالہ شعری سفرکے دوران بصیرت و بصارت کی جو بلند سطح قائم کی ہے ا س کا اعتراف  متعدد معتبر قلمکاروں نے کیا ہے۔ڈاکٹر جعفر عسکری صاحب فرماتے ہیں۔’حباب ہاشمی کے اشعار میں زمانہِ حال کی دردمندیوں‘کلفتوں‘اور حرماں نصیبیوںکا اظہار تو ہوا ہے لیکن ایک توانا اور صحتمند رجائیت کے ساتھ۔وہ شکست وریخت کی اس خوںآشام  معرکہ آرائی میںپر امید اور ہر محاذپر نبرد آزما اور سینہ سپر نظر آتے ہیں‘
گزشتہ جلد میں ان کی سوانحی تفصیلات پیش کی جاچکی ہیں۔پھر بھی بتا دوں کہ اصل نام سعیدالحسن ہاشمی ہے۔فتحپور(یو۔پی) میں۲؍ اکتوبر۱۹۳۶؁ء کو ولادت ہوئی۔ان کے دو شعری مجموعوں۔۔شکستِ حرف اور نقدِ جاں کو ان کی شاعرانہ ہنرمندیوں کا دو روشن سنگِ میل کہا جاسکتا ہے۔زیرِ نظر غزل  زندگی اور اس سے وابستہ مسائل سے ہمکلام ہے۔اس میں ماضی اور حال کے روشن وتاریک پہلووں کا مشاہدہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
رابطہ۔E-38/1جی۔ٹی۔بی نگر۔کریلی۔ الہ آباد۔(U.P)211016

غزل
آرزووں کا جہاں ہے کہ نہیں
زیست اک سیلِ رواں ہے کہ نہیں

مندمل زخمِ جگر ہو کہ نہ ہو  
سعیٔ چارہ گراں ہے کہ نہیں

آپ کی تلخ کلامی توبہ
میرے منھ میں بھی زباں ہے کہ نہیں 

پوچھتے کیا ہو مرا حالِ تباہ 
میرے چہرے سے عیاں ہے کہ نہیں

دولتِ فخر وغنا کیا کہنا
برتر از سود وزیاں ہے کہ نہیں

اپنی تاریخ کا روشن پہلو
اب حدیثِ دیگراں ہے کہ نہیں

اس کو کیا ڈھو نڈتے پھرتے ہو حبابؔ
وہ قریبِ رگِ جاں ہے کہ نہیں
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages