Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Indara Shabnam Indo Taruf wa Ghazal

اندرا شبنم اندو

اندرا شبنم اندو صاحبہ کثیر لسانی فنکارہ ہیں۔ سندھی ‘ مراٹھی‘ ہندی اور اردو میں یکساں قدرت حاصل ہے۔ چاروں زبانوں میں ان کی سات تصنیفات شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں اور ان کتابوں پر انہیں مختلف اداروں نے ایوارڈسے نوازاہے۔ یہ کتابیں افسانوں‘غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہیں۔ ان کا پورا نام اندرا پونا والا (شہداد پوری) اور تخلص شبنم ہے۔ قریبی لوگوں میں اندو کے نام سے معروف ہیں۔ ۲۴؍نومبر میں سندھ (پاکستان) میں ولادت ہوئی۔تقسیم وطن کے بعد ہندوستان آگئیں اور تا حال پونا میں مقیم ہیں۔ بی ۔اے۔بی ایڈ اور ساہتیہ رتن کی سند یافتہ ہیں۔۲۸؍ برسوں تک تدریسی فرائض انجام دئے  ’جیل کی لیڈی وارڈن بھی بنیں‘  محکمہ پولیس میں بھی کچھ عرصہ گزارا۔یوگا ٹیچر بھی رہیں۔اگر ان کے سوانحی اور ادبی پسِ منظر کی تفصیلات پیش کروں تو کئی صفحات درکار ہوں گے جس کا محل یہاں نہیں۔
اجمالاً عرض ہے کہ شاعری اور افسانہ نگاری ہر دو میدان میں انہوں نے نام پیدا کیا ہے۔ وہ ایک اچھی شاعرہ ہیں یا ایک اچھی افسانہ نگار اس کا فیصلہ نا قدین پر چھوڑتے ہوئے ان کی شاعری پر گفتتو کرنا چاہوں گا۔شاعری میں غزل اورنظم ان کی پسندیدہ اصناف ہیں۔ ان میں نسائی شاعری کے روشن خطوط بھی ہیں تو ظلم وزیادتی کے خلاف احتجاج کی لے بھی تیز ہے۔ ان کی نظر صرف حال کے مجروح چہرے پر نہیں بلکہ نئے آفاق کی تلاش و جستجو میں بھی سر گرداں رہتی ہیں۔ ان کے فن کا اعتراف آج کے برگزیدہ مشاہیر ادب نے کیا ہے۔ ظہیر غازیپوری صاحب کو ان کے افسانوں میں نئی حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر محبوب راہی ان کی اثر آفرینی‘ ندرت خیال اور تازہ کاری کے معترف ہیں۔ دیپک بدکی صاحب کے بقول ظلم وزیادتی کے خلاف وہ اپنے قلم کو تلواربنا لیتی ہیں۔ نذیر فتحپوری صاحب کہتے ہیں غزلوں میں وہ کبھی پھولوں کی زبان میں گفتگو کرتی ہیں تو کبھی ان کا لہجہ کانٹوں میں بدل جاتا ہے۔ بہر حال یہاں ان کی ایک ایسی غزل پیش ہے جسمیں جمالیاتی کیف و کم بھی ہے اور نئے منطقوں کی جستجو کا جذبہ بھی کار فرما نظر آتا ہے۔
رابطہ۔1100؍ ماڈل کالونی۔ 9/Bمیوربن اپارٹمنٹ۔ شیواجی نگر پونے۔411016موبائل

کچھ اس طرح سے لکھوں کہ لکھا نیا لگے 
ہر لفظ ہر خیال انوکھا نیا لگے

دکھ سہتے سہتے گزری ہے میری تمام عمر 
اب سکھ کہیں ملے تو انوکھا نیا لگے

ہر سوچ میں تلاش ہے مجھکو نئی نئی 
جتنا میں اس کو سوچوں وہ اتنا نیا لگے

تم دل کی دھڑکنوں میں سمائے ہو اس طرح
جس زاویے سے دیکھوں تو چہرا نیا لگے

شبنمؔ میں چلتے چلتے کہاں آگئی ہوں آج
ہر اک قدم پہ مجھکو یہ رستہ نیا لگے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages