Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 30, 2020

Internet ke Zamane Me Urdu Kitabi Mele Umeed Ki Aakhari Kiran

انٹرنیٹ کے زمانے میں اردو کتابی میلے:امید کی آخری کرن

قاضی مشتاق احمد

B-6,Ray-venueSociety
I.C.SColony.GaneshKhind-411007


قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی اور کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے اشتراک سے مہاراشٹر کے صنعتی شہر بھیونڈی میں منعقدہ ۹؍روزہ کتابی میلے (۱۷؍سے ۲۵؍ دسمبر۲۰۱۶) میں ایک کروڑ ۱۴؍لاکھ ۵۵؍ہزار۱۲؍روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔اس حساب سے یہ اب تک کا سب سے کامیاب میلہ ثابت ہوا۔ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نوٹ بندی بھی محبان اردو کے جوش و خروش پر روک نہیں لگا سکی۔ کتاب میلے میں ۱۲۱؍ اسٹال لگائے گئے تھے جن میں ہندوستان کے اہم ناشرین شامل تھے۔ کتاب میلے میں ادب ‘مذہب اور تاریخ کی اہم کتابیں برائے فرخت اسٹالز پر رکھی گئی تھیں۔ بڑی تعداد میں طلبہ‘والدین‘ اساتذہ اور عمائدین شہر کے علاوہ ریاست کے دیگر شہروں کے محبان ِاردواپنی پسند اور دلچسپی کی کتاب یں خرید رہے تھے۔نوٹ بندی کے پیش نظر بعض کتاب فروشوں نے سوائپ مشینیں بھی لگائی تھیں لیکن اس کا استعمال کم ہی ہورہا تھا۔جب کہ آخری دن تو گویا خریداروں کا سیلاب اُمڈ آیا۔میلہ کے کنوینر امتیاز خلیل نے میلے میں کتابوں کی فروخت اور بچوں کی حاضری کے متعلق انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ’’بیشتر لوگوں کو شکایت تھی کہ میلے میں بچوں کی کثرت ہے تاہم جب ذہنوں کی گرد چھٹے گی تو معلوم ہو گا کہ ہم اس میلے کے توسط سے ۲۰؍ برس کا قاری چھوڑے جا رہے ہیںجو زندگی بھر آپ کے ساتھ وفادار رہے گا۔‘‘اس میلہ کی زبردست کامیابی سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ تدریس میں ٹیکنالوجی پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کتابوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔اس میلہ میں ثقافتی پروگراموں کے انعقاد اور اردو ذریعۂ تعلیم کے مسائل پر گفتگو اور دانشوروں کی شمولیت نے اس کی افادیت میں اور اضافہ کیا ’’اردو ذریعۂ تعلیم میں معیار کا مسئلہ اور ہماری ذمہ داریاں‘‘’’سول سرویسس میں اردو طلبہ کے لئے مواقع‘‘جیسے موضوعات پر ماہرین نے سیر حاصل گفتگو اور شرکاء کے سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دیے۔ایک کامیاب پینل ڈسکشن بھی ہوا۔ 

ثقافتی پراگرموں میں راقم الحروف کے تحریر کردہ دو بابی اردو ڈرا مے ’’آزاد کا خواب: ہندوستان کی آزادی‘‘(مولانا آزاد کی حیات ‘خدمات اور ان کی ذاتی زندگی پر مبنی )اور ایک مونولاگ’’غالب سفر میں‘‘ کو بے حد پسند کیا گیا ۔ڈراما شروع ہونے سے قبل ہی انیس ہائی اسکول کا کیمپس محبان اردو سے بھر گیا جن میں خواتین کی اکثریت تھی۔ شایقین نے دونوں ڈرامے بہت پسند کیے اور تالیوں کے ذریعہ اداکاروں کا حوصلہ بڑھایا۔دلچسپ بات یہ کہ ان دونوں ڈراموں میں جوہر دکھانے والے اداکار غیر اردو داں تھے جنھیں مشہور ہدایت کار مجیب خان نے اردو زبان کا تلفظ صحیح سکھایا تھا اس لئے ان کا تلفظ صحیح تھا۔ڈراموں کے پُر اثر سین اور اور زبردست مکالموں نے سماں باندھ دیا۔خصوصاً مولانا آزاد کا کردار اداکرنے والے بندیل کھنڈی ادا کار یکتا رتھ شری واستو نے اپنی اداکاری اور بہترین ڈائیلاگ ڈلیوری سے لوگوں کا دل جیت لیا۔ جب نہایت عزت و احترام کے ساتھ بحیثیت ڈراما نگار راقم کا تعارف مجیب خان نے کرایا تو بڑی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔میں اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا انعام سمجھتا ہوں۔اس کے بعد مجیب خان صاحب نے مشہور شاعر بیکل اُتساہی کو خراج عقیدت پیش کیا۔کتاب میلہ کا افتتاح مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر نے کیا ۔پرکاش جاوڈیکر کا تعلق مہاراشٹر کے آکسفورڈ اور مشرقی ہندوستان کے علی گڑھ کہلانے والے علمی شہر پُونے سے ہے۔ زعفرانی پارٹی سے متعلق ہونے کے باوجود ان کے مراسم اقلیتوںکے ساتھ بھی خوشگوار ہیں۔بھیونڈی کے اس کامیاب ترین اردومیلہ کی رونق اور کامیابی کو دیکھ کر وہ یقیناً متاثر ہوئے ہوں گے۔ انھیں اس بات کا احساس بھی ہوگیا ہوگا کہ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے۔یہ مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ پورے ملک کی زبان ہے۔دنیا میں ۶۸۰۰؍ زبانیں ہیں اور ۴۲؍ہزار لہجہ میں بولی جاتی ہیں۔ان زبانوں میں اردو زبان کا پانچواں نمبر ہے۔ اگر وہ ڈراما’’آزاد کاخواب ‘‘کے غیر اردو داں اداکاروں کے صحیح و شستہ تلفظ کو سن لیتے تو انھیں اس بات پر یقین آجاتا کہ اردو زبان سیکھنے میں آسان ہے۔اور اس زبان کے ذریعہ عوام الناس تک رسائی ممکن ہے۔میلہ کے اختتامی اجلاس میں کونسل کے ڈپٹی ڈائر یکٹر کمل سنگھ نے اردو کے قارئین سے التماس کی کہ وہ ہمیں اس زبان کے فروغ کے متعلق مشورے دیں جنھیں ہم مارچ‘اپریل میں منعقد اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وزرات کے سامنے پیش کریں  گے۔

اس سلسلے میں میرا
 مشورہ یہ ہے کہ کونسل زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملک کے دوردراز مقامات پر بھی اردو میلوں کا اہتمام کرے۔اردو کتابیں دوردراز مقامات پر مہیا نہیں ہیں۔ کتابوں کے قارئین میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے جنھیں اردو کتابوں کی کمیابی کی شکایت ہمیشہ ہوتی ہے۔ بھیونڈی کے اردو میلہ میں ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔اس دن خواتین نے
  مقررہ وقت میں ۱۴؍لاکھ ۳۶؍ہزار۳۴۰؍روپے کی اردوکتابیں خرید کر یہ ثابت کر دیا کہ زبان سے محبت کے معاملے میں وہ بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔بھیونڈی جیسے مزدوروں اور محنت کشوں کی بستی میں یہ حال ہے تو پھر بھلا ان علاقوں میں کیا ہوگا جہاں خوش حالی ہے۔ میلہ ہر گز کامیاب نہ ہوتا اگر منتظمین نے اردو زبان وادب کا پیغام طلبا و طالبات کے ذریعہ دور دور تک نہ پہنچایا ہوتا۔ اس سلسلے میں اس علاقہ کے اردو اسکولوں اور کالجوں کے طلبا نے ریلیاں نکال کر شہریوں سے اس کتاب میلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی تھی۔ریلی میں شریک طلبہ اپنے ہاتھوں میں متعدد پلے کارڈس لئے ہوئے تھے۔ جن میں اردو میں مختلف اشعاراور نعرے تحریر تھے۔مثلاً
وہ کرے بات تو ہر بات سے خوشبو آئے۔ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
جب تک سورج چاند رہے گا ‘اردو تیرا نام رہے گا
منتظمین نے میلہ کے موقع پر طلبہ کی دلچسپی کے پیش نظر ثقافتی پروگرام‘ مذاکرے‘شامِ غزل‘اور ڈرامے منعقد کر کے گھر وں میں بیٹھ کر ٹی وی کے سامنے وقت گزارنے والوں کو میلہ میں آنے کا سامان پیدا کیا۔ گلہ بازشاعروں کی بھیڑ جمع کرکے مجمع لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔صرف وقت اور روپے برباد ہوتا ہے۔ ان میں کچھ ایسے بھی پیشہ ور شاعر آجاتے ہیں جنھیںشراب پی کر اپنی اصلیت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی یا وہ شاعرات آجاتی ہیں جو کسی دوسرے شاعر سے غزل لکھوا کر لاتی ہیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ داد کے ساتھ نوٹ وصول کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔


امید ہے کہ کونسل ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔ اردو زبان کی ترقی و بقا کی راہ میں بے مقصد سمیناروں کا جان لیوا مرض حائل ہے۔ پیشہ ور مقالہ نگار حضرات عوامی دلچسپی سے محروم موضوعات پر سمینار منعقد کر کے لوگوں کا وقت اور سرکار کا پیسہ ضائع کررہے ہیں۔یہ گروہ اب’’سمینار مافیا‘‘کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہم اس قسم کی ادب دشمن روایتوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور ایسے حالات پیدا کریں کہ ہماری نئی نسل اردو کتابیں‘ رسائل اور اخبارات پڑھنے میں دلچسپی لے اور انٹرنیٹ کا استعمال بلاوجہ نہیں بلکہ ضرورت ہوتو کریں۔ ٭٭٭٭ 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages