اسمٰعیل فوزؔ
رائلسیما کے ضلع کڈپہ کی طرح کرنول بھی آج اردو کا ایک بڑا گہوارہ بن چکا ہے۔ اس سرزمین نے بھی اردو شعر و ادب کو کئی انمول رتن دئے ہیں اور جن کی روایت کو توسیع دینے والوں میں ایک نام اسمٰعیل فوزؔ ہے۔ ایک جواں سال اور جواں فکر شاعر کی حیثیت سے انہوں نے اردو شاعری کو فرسودہ روایات کے تنگ حصار سے نکال کر غزل کو ایک نئی جہت عطاکی ہے جو عصری میلانات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ان کے فن کا اعتراف کرنے والوں میں ڈاکٹر ستار ساحر ‘ ڈاکٹر وحید کوثر اور ڈاکٹر صدیق قیسی جیسے بلند پایہ ناقدین ادب شامل ہیں جن کے بقول فوزؔ صاحب کی شاعری متانت، سنجیدگی، عصری آگہی اور جدت طرازی کا عمدہ نمونہ ہے۔
ان کا پورا نام محمد اسمٰعیل ہے ۔ ادبی دنیا میں اسمٰعیل فوزؔ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ والد مرحوم کا اسم گرامی مدار صاحب ہے۔ کرنول میں ان کی ولادت ۱۹۶۹ء کو ہوئی۔ پہلے فن خطاطی اور مصوری میں مہارت پیدا کی۔ پھر تاریخ اور سیاسیات میں ڈبل ایم اے کیا۔ وہ ایم ایڈ اور ایم فل کے ڈگری ہولڈر بھی ہیں۔ سردست شعبئہ تاریخ میں لکچرار ہیں ابتدائی زندگی میں بڑے دکھ جھیلے اب اللہ کے فضل وکرم سے سکون کی زندگی پائی ہے البتہ زندگی کے سفر میں آج بھی تنہا ہیں اور یہ تنہائی ان کی شاعری میں بھی پائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۰ء سے شعری سفر جاری ہے۔ سوزیسیری صاحب سے شرف تلمذ حاصل رہا ہے۔ غزلوں کا ایک مجموعہ’’امکان‘‘ ان کے شعری سفر کا روشن سنگ میل ہے۔ زیر نظر غزل ان کے حزنیہ جذبات اور ادھوری خواہشات کی آئینہ دار ہے۔
رابطہ۔2-74 موتی گنج ۔کرنول۔
(A.P) 518001
درد دل میں بسا لیا ہوتا
چین سے پھر مزہ لیا ہوتا
کاغذی پھول بھی مہک اٹھتے
لمس تیرا جو پالیا ہوتا
وہ نہیں ہے تو اپنا ہونا کیا؟
کاش خود کو مٹا لیا ہوتا
زندگی کا علاج ہے یہ بھی
زہر بھی آزما لیا ہوتا
چاہتے ہیں کہ کچھ نہ چاہیں فوزؔ
کم سے کم اتنا پا لیا ہوتا
No comments:
Post a Comment