Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Khaleeq Uz Zaman Nusrat Taruf Wa Ghazal

خلیق الزماں نصرتؔ

گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کو تجربوں کا دور کہا جاسکتا ہے جب جدیدیت کے نام پرلسانی وفنی تجربے کثرت سے ہوئے۔زبان کی توڑ پھوڑ کا عمل بھی دیکھنے کو ملا۔لیکن ساتویں دہائی کے آتے آتے غزل پھر اپنی متوازن ڈگر پر چل پڑی۔یہی وہ وقت ہے جب شعری منظر نامہ میں خلیق الزماں نصرت صاحب کا ورود ہوا۔وہ ۱۹۶۸؁ء سے دادِ سخن دے رہے ہیں۔ان کی شاعری میں توازن بھی ہے اور لسانی احترام کا جذبہ بھی۔وہ اپنی غزلوں میں باطنی درو بست‘رمزیاتی پہلو اور معنی آفرینی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ادب‘تنقید‘انشائیہ اور افسانہ نگاری جیسی اصناف پر بھی دسترس ہے اور ان موضوعات پران کی تین کتابیں شائع ہوکرمہا راشٹر اور بہار اردو اکاڈمیوں سے ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں۔بھیونڈی میں ’’اردواور نئی غزل نئے جائزے ‘‘کے عنوان سے دو تحقیقی اور تنقیدی مجموعے زیرِ ترتیب ہیں
پورا نام خلیق الزماں اور نصرت ؔتخلص ہے۔والدِ محترم کا اسمِ گرا می جناب محمد سلیمان ہے۔تاریخِ پیدئش کی جانکاری نہیں دی ۔شعری سفر کی شروعات کے پیشِ نظر سنہ پیدائش ۱۹۴۸اور ۱۹۵۰ کے دوران ہوسکتا ہے۔وطنِ مالوف سندر پور ۔دربھنگہ(بہار )  ہے اور بھیوندی وطنِ ثانی جہاں ممبئی مرکنٹائل بینک میںافسر ہیں۔بی۔ کام اور ایم۔ اے کے بعد ریسرچ کر رہے ہیں۔بنیادی طور پر نثر نگار ہیںلیکن شاعری کا بھی رچا بسا ذوق پایا ہے جسے جلا بخشنے میں جناب مہر شکروی اور جناب فیضی نظامپوری جیسے اساتذہ کی رہنمائی کا اہم رول ہے زیر نظر غزل میں آج کی بدلتی ہوئی قدروں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے جس میں ان کے تجربات ومشاہدات کی چھوٹ بھی شامل ہے۔
رابطہ۔ فلیٹ نمبر
F/15
بلڈنگ نمبر ۴؍ سائی نگر کالونی۔ بھیونڈی
۔421302(
مہاراشٹر) 

ہر قدم پر اک نیا طوفان ہو
پھر بھی چہرے پر کھلی مسکان ہو

دوستوں کی طرح ملتے ہیںسبھی
دشمنوں کی کس طرح پہچان ہو

بدنصیبی اس سے بڑھ کے ہوگی کیا 
اپنے گھر میں بھی کوئی انجان ہو

دوستوں سے بھی عداوت ہوگئی
اب مرے جینے کا کیا امکان ہو

اس لئے میں جھیلتا ہوں مشکلیں
چاہتا ہوں زندگی آسان ہو

ہے وہی اس دور میں عزت مآب
کوئی خوبی ہو نہ ہو دھنوان ہو

ہم تو اپنی دھن میں چلتے جائینگے
راہ پیچیدہ ہو یا سنسان ہو

یہ خدا کا فضل ہے نصرت ؔمیاں
آج بھی تم صاحبِ ایمان ہو

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages