Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Lateef Johar Taruf wa Ghazal

لطیف جوہرؔ

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے آس پاس شعری منظر نامہ میں جن شعرانے جولان گاہ ادب میں اپنی فضیلت فن کا جواز فراہم کرنا شروع کیا ان میں لطیف جو ہر صاحب کو ان معنوں میں انفرادیت حاصل ہے کہ تہذیبِ شعر کو بر قرار رکھتے ہوئے انہوں نے جدید آہنگ اختیار کیا۔ وہ غزل کے شاعر ہیں اور ان کی غزلوں میں عصری حسیت کے ساتھ معنوی اور تہذیبی رچائو بھی ہے۔ اپنی کاروباری مصروفیات کے باوجود وہ جس لگن اور تند ہی سے زلفِ غزل کی مشاطگی کر رہے ہیں اس کے پیش نظر ان کے روشن مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
پورا نام عبد اللطیف عبدالعزیز خاںہے اور لطیف جوہر کے قلمی نام سے ادبی حلقوں میں روشناس ہیں۔شہر پونہ میں ان کی ولادت ۴؍اگست ۱۹۴۹؁ء کو ہوئی۔حافظ‘عالم‘قاری ہونے کے علاوہ پونہ کالج سے گریجویشن بھی کیا ہے۔اعلیٰ تعلیم کے باوصف ملازمت کی بجائے نجی کاروبار کو ترجیح دی۔موتیوں کی زیورات سازی ان کا خاص پیشہ ہے۔مدرسہ میں تعلیم کے دوران شیخ سعدی کے گلستان اور بوستان کے مطالعہ سے انہیں شاعری کی تحریک ملی جس کا باقاعدہ آغاز ۱۹۶۷؁ء میں کیا۔پہلی غزل کی اصلاح شیخ الحدیث حضرت عبد المصطفیٰ اعظمی صاحب سے لی۔سرِ دست پونہ کے استاد شاعر جناب سید آصف سے وابستہ ہیں۔ساتھ ہی زبان وادب کی گرانقدر خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔غزل اکاڈمی پونہ کے صدر اور اردو ساہتیہ پریشد کے رکن بھی ہیں۔ان کی زیرِ نظر غزل زندگی کے متنوع مظاہر کی آئینہ دار ہے جسمیں ہماری خوشی‘غمی‘خلوص‘حادثات وخدشات جیسے جذبات ومحسوسات کوشعری پیکر عطا کیا گیا ہے۔

خلوص ِدل بھی کوئی چیز ہے جذبات سے پہلے  
ہمیں یہ مان لینا چاہئے ہر بات سے پہلے

جو شکوہ غم کا کرتے ہیں‘ وہ کیسے بھول جاتے ہیں
 خوشی کے دن بھی گزرے ہیں غموں کی رات سے پہلے

دھماکے بادلوں کے‘کڑکڑاہٹ تیز بجلی کی 
یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے گھنی برسات سے پہلے

بہت محتاط رہکر بھی کہاں ممکن ہے جی پانا 
 حوادث ہوہی جاتے ہیں یہاں خدشات سے پہلے

وہ جن کو ہوش ہوتا ہے وہ سب کچھ تاڑ لیتے ہیں 
اشارے ملتے رہتے ہیں برے حالات سے پہلے

بھرو اونچی اڑانیں آسمانوں تک کو چھو آؤ 
نبٹ تو لو زمیں کے مختلف درجات سے پہلے

نہیں جوہرؔ ہمارے واسطے دنیا تو پھر کیا ہے  
بتاؤ تھی کہاں دنیا ہماری ذات سے پہلے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages