Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Mohammed Farhat Hussain Khushdil Taruf wa Ghazal

محمد فرحت حسین خوشدلؔ

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سے اردو شاعری ایک متوازن ڈگر پر چل پڑی ہے کیونکہ ٹھیک اس کے قبل جدیدیت کے نام پر لسانی توڑ پھوڑ کا جو عمل شروع ہوا تھا اس کی کثافت سے یہ شاعری پاک ہے۔اسی دور میں فرحت حسین خوشدلؔ صاحب کا ورود شعری منظر نامہ میں ہوا۔چناچہ ان کی شاعری زبان وبیان کے اعتبار سے نہ صرف سلاست وسادگی پر مبنی ہے بلکہ اس میں گہرائی وگیرائی کا احساس بھی ہوتا ہے۔اظہار نہ تو گنجلک ہے اور نہ ہی پیچیدہ۔سادہ وسلیس لفظوں میں وہ معمولی واقعات کو اہم بناکر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔حالانکہ ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا لیکن اب وہ ایک ادیب‘ناقد اور محقق کا ثبوت بھی دینے لگے ہیں۔ اس طرح ان کی شخصیت ایک ہمہ جہت قلمکار کا روپ اختیار کرچکی ہے۔
ان کی سوانحی تفصیلات اس کتابی سلسلہ کی جلد اول میں پیش کی جاچکی ہیں۔مختصر بتادوں کہ مرحوم سید علی صاحب کے یہ سپوت خوشدل کے ادبی نام سے اپنے خاندان کا نام روشن کررہے ہیں۔بھاگلپور کے مردم خیز خطہ برہ پور میں ولادت ۵؍جنوری ۱۹۵۸؁ء کو جس علمی خانوادے میں ہوئی اس کی فضا پہلے ہی سے شعر وادب کی خوشبوؤں سے معطر تھی۔ماحول بھی دینی ملا چناچہ ورثہ میں جو شاعری پائی اس کو تعمیری رخ عطا کیا۔ ۱۹۷۵؁ء سے شاعری کی ابتدا کی اور بڑی سرعت سے ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے عالمی سطح پر انہوں نے اپنی ایک منفرد شناخت بنا لی ہے۔اردو اور فارسی میں ڈبل ایم۔اے ہیںاور سرِ دست ۲+ضلع اسکول ہزاری باغ کے شعبۂ اردو سے منسلک ہیں۔ انکی زیرِ نظر غزل سے صلابتِ فکری اور عمیق مشاہدات عکس ریز ہیں۔
رابطہ
۔شعبۂ اردو ۔۲+ضلع اسکول۔ ہزاری باغ۔825301(جھاڑ کھنڈ)

دنیا کا تماشہ بھی بڑاہوش ربا ہے
کچھ خواب ہے‘کچھ اصل ہے‘کچھ طرزِ ادا ہے

مانگی ہوئی دستار کبھی سر پہ نہ رکھنا  
جس شخص کا جو قد ہے اسی قد میں بڑا ہے

سورج سی بلندی پہ تکّبر نہیں اچھا  
سورج بھی بلندی سے سمندر میں گرا ہے

جلتی ہوئی اس دھوپ میں ہوں اب بھی سلامت
بس میری حفاطت کے لئے ماں کی دعا ہے

کیوں آج کسی شاخ پہ غنچہ نہیں کھلتا 
گو آج بھی مالی میں وہی جوش بھرا ہے

بے جان سہارے کہاں کام آتے ہیں خوشدلؔ
مضبوط سہارا مرا بس ایک خدا ہے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages