محمد الیاسؔ مطیبی
گزشتہ صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائیوں کے دوران جو شعرا منظرِ عام پر آئے ان میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔کچھ نے پیرویِ میر کو اپنا وتیرہ بنایا تو کچھ ترقی پسند تحریک کی جانب راغب ہوئے۔الیاسؔ مطیبی صاحب کا شمار اول الذکرشعرا کی صف میں کیا جاسکتا ہے جن کی شاعری روایت کی صالح قدروں پر استوار ہے۔مگر تازہ ہواؤں کے لئے بھی انہوں نے اپنے ذہن کے دریچے کھلے رکھے ہیں جس کی بنا پر ان کی شاعری دورِ حاضر کے معاملات ومسائل سے بھی گفتگو کرتی ہے۔
اصل نام محمد الیاس ہے اور قلمی نام الیاس مطیبی۔والدِ بزرگوار محمد یعقوب مطیبؔ بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے اور شہنشاہِ رباعیات حضرت امجد حیدر آبادی کے ارشد تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔چار مجموعوں کی صورت میں ان کے شعری اثاثہ کوالیاس مطیبی صاحب نے شائع کراکے تاریخِ ادب کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔الیاس صاحب کی ولادت سلطان شاہی(حیدر آباد) میں ۲؍نومبر ۱۹۳۶ء کو ہوئی۔میٹرک پاس ہیں اور اپنا نجی کار وبار چلاتے ہیں۔شاعری میں پہلے اصلاح اپنے والدِ محترم سے لی۔ان کے انتقال کے بعد آج کے معروف ومعتبر شاعر حضرت یوسف یکتاؔ صاحب کے دامنِ فیض سے وابستہ ہیں۔انکی تخلیقات اخبارات ورسائل کی زینت بن رہی ہیں۔مشاعروں بھی شرکت کرتے ہیںاور ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں
ایک شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے۔زیرِ نظر غزل میں روایتی اسلوب نمایاں ہے لیکن عصرِ حاضر کی دھڑکنیں بھی سنی جاسکتی ہیں۔
رابطہ۔
مکان نمبر۔1-20-266رسول پورہ۔نزد ہاکی اسٹیڈیم۔پولیس لائن
۔بیگم پیٹ۔سکندر آباد۔
(A.P)500003
غزل
گھٹا گھنگھور پھر چھائی ہے یارو
خبر اخبار میں آئی ہے یارو
قدم رکھنا زمیں پر اب سنبھل کر
یہاں پھیلی ہوئی کائی ہے یارو
زمانہ جس کو دشمن کہہ رہا ہے
وہی میرا بڑا بھائی ہے یارو
دلوں سے خوف اٹھتا جارہا ہے
قیامت کیا قریب آئی ہے یارو
جسے میں بھول جانا چاہتا تھا
اسی کی یاد پھر آئی ہے یارو
ملی ہے شاعری ورثہ میں الیاسؔ
غزل حضرت نے لکھوائی ہے یارو
No comments:
Post a Comment