Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Mohib bur Rahman Wafa Taruf wa Ghazal

محب الرحمٰن وفاؔ

         سجا کر نئے استعاروں میں تم نے   لکھا ہے وفاؔ مرثیہ اس صدی کا
محولہ بالا شعراس بات کا شاہد ہے کہ محب الرحمٰن وفاؔ اپنے دل میں تعمیری جذبہ رکھتے ہیں اور اکیسویں صدی کے تخریبی رویوں کا بیحدقلق ہے۔ رشتوں کی پائمالی‘ قدروں کی شکست و ریخت، دہشت گردی جیسے سانحات اس صدی کا المیہ ہیں اور جب ان موضوعات کو اپنی فکر کا محور بناتے ہیں تو اس کا ظہور مرثیہ کی صورت میں ہوتا ہے۔وہ ایک تازہ کا ر اور جواں فکر شاعر ہیں اور ادب کے عصری منظرنامہ میں ان کا نام تیزی سے ابھرنے لگا ہے۔اگر پیش رفت اسی طرح جاری رہی تو اس خلاء کے پر ہونے کی امید ہے جو ان کے تایازادبھائی ڈاکٹر امین انعامدار مرحوم چھوڑ گئے ہیں۔
محب الر حمٰن پورا نام ہے اور وفاؔ تخلص۔ والد ماجد کاا سم گرامی جناب طالب الرحمٰن انعامدار ہے جو کہ ایک خوش فکر شاعر ہیں اور صاحب مجموعہ بھی ہیں۔ یوداضلع امراوتی (مہاراشٹر) میں ان کی ولادت ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۶۴ء؁ کو ہوئی ممبئی سے سیول انجینیرنگ کرنے کے بعد مقامی کاشی بائی اگر وال جونیر کالج کے شعبئہ تعمیرات میں تدریسی فرائض انجام دے رہے اور اپنا کنسلٹنسی کا ادارہ بھی چلا تے ہیں۔ چونکہ گھریلو ماحول شعر و ادب کی خوشبو سے رچا بسا ہے اسلئے ان کا ادبی ذوق ایک فطری امر ہے۔ حالانکہ مراٹھی ذریعہ تعلیم رہی ہے لیکن عمیق مطالعہ اور مشق و مزاولت سے انہوں نے اردو میں اچھی استعد اد حاصل کر لی ہے۔ نظم و نثر دونوں میں ان کی قلم کاری کا جوہر دیکھا جا سکتا ہے۔ ادبی مضامین لکھتے ہیں قطعات ، ثلاثیاں اور نظمیں بھی کہتے ہیں لیکن غزل ہی ان کی شناخت بنتی جارہی ہے۔ اولین مجموعہ ’’آئینہ‘‘ زیر ترتیب ہے۔ شاعری کی عمر کم سہی لیکن ایک قلیل عرصہ میں انہوں نے جس تیزی سے پیش رفت کی ہے۔ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ان کی نگار شات بھی تو اتر سے شائع ہورہی ہیں۔ احساس جمال کے ساتھ ان کے یہاں عصری حسیت نمایاں ہے کہیں کہیں استعارات و علائم کا استعمال بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ زیر نظر غزل ان کے احساس جمال ، فکری طہارت اور تعمیری جذبوں کی تر جمانی کرتی ہے۔
رابطہ۔ انعامدار پورہ۔تعلقہ دریا پور
۔پوسٹ یودا۔ضلع امراوتی  444706-(مہا راشٹر) 
غزل
جو ہم نے پارس چھوا تو اپنی بصیرتوں کو نکھار لائے
غزل کے کوزے میں فکر وفن کے سمندروں کو اتار لائے

منافقت کی تمازتوں سے وجود سارا جھلس چکا ہے
 لبوں پہ ایسے میں پھر تبسم کوئی کہاں سے ادھار لائے

قدم قدم پر ہماری راہوں میںجو بھی کانٹے بچھا رہے تھے
ہمیں جو دیکھا بلندیوں پر وہ لیکے پھولوں کا ہار آئے

سفر میں پردیس کی زمیں پرلگے ہے یوں ہم وطن سے مل کر
خزاں کی جلتی ہوئی رتوں میں ہماری خاطر بہار لائے

حسین زیور ہے انکساری‘نکھارے انساں کی شخصیت کو 
یہ ایسی خوبی ہے جو کہ دل میںمحبتوں کو ابھار لائے

پہنچ کے شہرت کے آسماں پربہکنے لگتے ہیں لوگ اکثر  
وفاؔ یہ ایسی شراب ہے جو بنا پئے ہی خمار آئے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages