Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Moulvi Muti Ullah Nazish Taruf wa Ghazal

مولوی مطیع اللہ نازشؔ

مضامین کے اولین مجموعہ’’عکسِ بصیرت‘‘ کی اشاعت سے مولوی مطیع اللہ نازشؔ صاحب نے اڑیسہ کے نثر نگاروں میں جس سرعت سے اپنی شناخت بنائی ہے‘اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر مجاہد حسین حسینی صاحب فرماتے ہیں ۔’’ہمارے سامنے اڑیسہ (ہندوستان)کی وادیوں سے نکل کر ایک ’’شاہیں بچہ‘‘آیا ہے۔اس کا نامِ نامی ہے مطیع اللہ نازشؔ۔معبودِ حقیقی نے اس بندۂ مومن کو انوارِ بصیرت سے جو تحفہ عطا فرمایا تھا وہ عکسِ بصیرت کے فصیح وبلیغ عنوان سے ہمیں دعوتِ ارمغان‘مژدۂ فرحتِ دل اور پیغامِ بالیدگیٔ روح دے رہا ہے‘‘ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی صاحب ان کی کشادہ نظری کے معترف ہیں تو علیم صبا نویدی اس کتاب کو ایک ادبی خزانہ اورداکٹر سید معصوم رضا عشروی اس کے باطنی اور ظاہری حسن کا اعتراف کرتے ہیں۔مذکورہ حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ نازشؔ صاحب کی اولین ترجیح نثر نگاری ہے۔
موصوف کٹک کے ماہر ہومیو پیتھ ڈاکٹر محمد آزاد خاں مرحوم کے چشم وچراغ ہیں۔۲۵؍نومبر۱۹۸۵؁ ء کو کٹک میں پیدا ہوئے بی۔اے کے ساتھ فاضلِ حدیث اور فاضلِ اردو کی سند رکھتے ہیں۔اس وقت کٹک کے ایک سرکاری اسکول راونشا کالجیٹ میں ہیڈ مولوی کے عہدے پر فائز ہیں۔اڑیسہ اردو اکاڈمی‘حج کمیٹی اور مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کی رکنیت بھی حاصل رہی ہے۔جمیعت العلما ہند کٹک کے ناظم بھی ہیں۔زیرِ نظر غزل سادہ وسلیس ہوتے ہوئے بھی گہری معنویت رکھتی ہے۔زندگی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے تلخ حقائق کو خوبصورت شعری پیکر عطا کیا گیا ہے۔
رابطہ۔
D-203   
 سیکٹر۔6 مرکت نگر سی۔ڈی۔اے کٹک۔
753014 (اڑیسہ)  

 غزل
دل کے کاغذپہ یہ رقم ہے میاں 
زندگی اک حدیثِ غم ہے میاں

شہرِ قاتل میں جی سکے گا وہی 
ہاتھ پاؤں میں جس کے دم ہے میاں

پھول نے داستاں سنائی ہے 
ایک پتھر کی آنکھ نم ہے میاں

چڑھتے سورج کو پوجنے والا 
آج تو سب سے محترم ہے میاں

کس لئے گم ہے تو خیالوں میں 
کام بیحد ہے وقت کم ہے میاں

کیا ملے گا طوافِ کعبہ سے
خانۂ دل میں جب صنم ہے میاں

پھر بھی نازشؔ کے ہونٹ خشک رہے
ہاتھ میں گرچہ جامِ جم ہے میاں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages