نہالؔ حفیظ
گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے ابتدائی برسوں میں مطلع ادب پر جو ستارے نمودار ہوئے ان میں نہال حفیظ صاحب بھی ایک روشن ستارہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کے شعر و ادب کی روشنی سے پوری اردو دنیا منور ہورہی ہے۔ ان کی غزلوں میں تازہ کاری، ندرت خیال اور عصری حسیت کے ساتھ نئے نئے فکرو خیال کے چراغ بھی روشن ہوئے ہیں۔ مروجہ روایتی لفظیات کو نئی معنویت سے ہمکنار کر کے انہوں نے اپنی شاعرانہ ہنر مندی کا جواز بھی فراہم کیا ہے۔
پورا نام نہال احمد حنیف ہے اور ادبی شناخت نہالؔ حفیظ۔ مالیگائوں ضلع ناسک میں ان کی ولادت یکم جون ۱۹۵۳ء کو ہوئی۔ بی اے جرنلزم اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن کی تکمیل کے بعد ممبئی میونسپل کار پوریشن کے شعبہ تعلیمات میں پبلک ریلیشن افسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ شاعری کے علاوہ تنقیدی و تحقیقی امور بھی انجام دے رہے ہیں۔ ان کی ایک تحقیقی تصنیف’’ نقوش‘‘ شعرائے مالیگائوں کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ ماہنامہ ’’صدفِ نو‘‘ کی مجلس ادارت سے وابستگی ہے۔ ادب اطفال کے فروغ کیلئے بھی محرک ہیں۔ نونہالانِ قوم اور ملک وملت کیلئے بھی دل میں تعمیری جذبہ رکھتے ہیں اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا ہے۔ ردیف ’’ہوا‘‘ کے ساتھ ان کی زیر نظر غزل میں ایک ایسی استعارائی فضا ہموار ہوئی ہے جسمیں ہوا کے تعمیری و تخریبی پہلوئوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
رابطہ۔فلیٹ نمبر۔ 51/602 اود مبرہائوسنگ سوسائٹی۔ شیو ساگر اپارٹمنٹ۔ چھٹی منزل بی۔ ونگ ۔تلک نگر
چیمبور۔ ممبئی۔400089
دشت انا میں دھوم مچاتی پھری ہوا
دامن کے تارتار اڑاتی پھری ہوا
خوشبو کے ساتھ رنگ اڑاتی پھری ہوا
پھولوں کو بے لباس بناتی پھری ہوا
پھیلائے جب بھی شام نے تاریکیوں کے جال
گھر گھر نئے چراغ جلاتی پھری ہوا
جن بستیوں کو ناز تھا اپنے وجود پر
ان بستیوں میں خاک اڑاتی پھر ہوا
ہر ایک کو وہ شہر ہوں یا بن کہ بحرو بر
روز اک انوکھا روپ دکھاتی پھری ہوا
اپنے لہو سے جس کو لکھاہم نے اے نہالؔ
وہ داستانِ درد سناتی پھری ہوا
No comments:
Post a Comment