Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Qudsiya Jamal Taruf wa Ghazal

قدسیہ جمالؔ

خاتون قلمکاروں کی کمی فی زمانہ محسوس کی جاتی رہی ہے۔( واضح ہوکہ فی زمانناً اب اردو میں فی ز مانہ ہی مستعمل ہے)۔ تعداد میں کم سہی انہوں نے جو ادبی سرمایہ اردو کو دیا ہے وہ ہمارے لئے گرانقدر تہذیبی ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اڑیسہ میں تو خاتون قلمکار وںکی بیحد کمی ہے۔ ایسے میں قدسیہ جمال کا ورود نیک فال ہے۔ وہ طالب علمی کے دور سے مضامین، غزلیں اور نظمیں لکھ رہی ہیں لیکن رفتار بہت سست ہے اور شادی کے بعد تو اور بھی سستی آئی ہے۔ ان کی پہلی نظم کالج میگزین میں شائع ہوئی تھی بھر اخبار اڑیسہ سے اشاعت کلام کا آغاز ہوا۔ کویت کے مجلہ نشاط میں بھی نظم شائع ہوئی ہے۔ اس کتابی سلسلہ کی اول کڑی میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ اگر وہ اپنے تخلیقی عمل کی جانب سنجیدہ ہوجائیں تو شاعری میں پیش رفت کا امکان ہے۔
بھدرک (اڑیسہ) میں ان کی ولادت ایک علمی خانوادے میں ہوئی ۔والد محترم جناب ابو سفیان ایک کامیاب وکیل ہیں۔ تعلیمی کیریر بڑا شاندار رہا۔ اردو ایم اے میں فرسٹ کلاس پاس کرنے پر گولڈ مڈل پاچکی ہیں۔ ان کی غزلوں میں جمالیاتی جاشنی کے ساتھ عہد حاضر کے سلگتے لمحوں کی تمازت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ایک ایسی غزل پیش ہے جسمیں احساس جمال نمایاں ہے۔ غم ہجر، انتظار کی کسک اور بیم ورجا کے موضوعات کو شعری لباس عطا کیاہے جسمیں نسائی لہجہ کی لطافت بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔
پتہ۔  معرفت ابو سفیان (ایڈوکیٹ) 
ننگاہ محلہ۔ بھدرک۔ 756100   
(اڑیسہ)

غزل

اندھیرے غم کے قدم جو اپنا بڑھا رہے ہیں 
تمہاری یادوں کے دیپ ہم بھی جلا رہے ہیں

پہنچ ہی جائے گی اس کی خوشبو تمہارے دل تک 
گلاب چاہت کے اپنے دل میں کھلارہے ہیں

امید وارمان ‘ یاس وحسرت کو دے کے دعوت 
نئی طرح کی اک انجمن کو سجارہے ہیں

ہمارے ہونٹوں کی مسکراہٹ ہے اک نمائش 
ہم اس کے پردے میں آنسوئوں کو چھپارہے ہیں

کبھی تو آئو گے ان پہ چل کر ہماری جانب 
تمہارے رستے میں چاند تارے بچھا رہے ہیں

زمانے والوں کا کیا بھروسہ جمالؔ ہم کو
خود اپنے کاندھوں پہ بوجھ اپنا اٹھا رہے ہیں

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages