Breaking

Post Top Ad

Wednesday, July 22, 2020

Ramesh tanha Taruf Wa Ghazal

رمیش تنہاؔؔ

دیکھنا اگر چاہو خود کو دیکھ لو مجھ میں۔میں مزاجِ دوراں کا آئینہ سراپا ہوں
لوگ خواہ کچھ بولیںکوئی نام دیں مجھ کو۔میں رمیش تنہاؔ تھا میں رمیش تنہا ؔہوں
مخولہ بالا اشعاررمیش تنہاؔ صاحب کی صرف صلابتِ فکری اور فنی پختگی ہی کا احساس نہیں دلاتے ہیں بلکہ ان کے وجود کو ایک انفرادیت بھی عطا کرتے ہیں۔بقول ڈاکٹر قمر رئیس’’حیرت نہیں کہ یہ شاعری جو عمر کے زوال کی شاعری ہے جدید احساس اور تخیل کی تازہ کاری سے مالا مال ہے۔وہ نئے شعری پیکروں سے اپنے وجود کے گرہوںاور رموز کو کھولتے ہیں۔‘‘ 
ان کی سوانحی تفصیلات جلد ۴؍میں دیکھی جاسکتی ہیں۔مختصراً بتادوں کہ لدھیانہ کے ایک چھوٹے گاؤںمیں ۲۶؍جولائی۱۹۳۶؁ ء کوولادت ہوئی۔انگریزی میں ایم۔ اے کیااور سینیر آڈٹ افسر کے عہدے سے۱۹۹۵؁ء میں سبکدوش ہوئے۔انگریزی سے گہرے سروکار کے باوجوداردو زبان پر اچھی گرفت رکھتے ہیںاور عروض کے بھی ماہر ہیں۔غزل‘نظم اور رباعی گوئی میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔شاعری کی ابتدا انگریزی نظموں سے کی اور چالیس سال کی عمر میں انہوں نے اردو میں ایک طرحی غزل چیلینج کے طور پر کہی۔اپنی پہلی غزل سے شعری سفر آغاز۱۱؍مارچ۱۹۷۶؁ء سے کیا۔دو شعری مجموعے’’حرفِ تنہا‘‘ اور ’’تیسرا دریا‘‘اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکے ہیں۔اس کبر سنی میں بھی ان کا اشہبِ قلم رواں دواں ہے۔ بصارت بھی متاثر ہوچکی ہے۔زیرِ نظر غزل میں خوبصورت استعارات اور علائم کی مدد سے اپنے گہرے مشاہدات کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔
رابطہ:۔5/1 گولڈن پارک(مہیش نگر)امبالہ کینٹ۔133031(ہریانہ)
غزل

گھر اکیلا ہے اسے گونج سے زندہ رکھنا
در ودیوار پہ آواز کا پہرا رکھنا

چاہے آکاش میں بھر لینا اڑانیں کتنی
شاخ پر اپنے شجر ہی کی بسیرا رکھنا

اپنی پہچان نہ پردیس میں کھو دینا کہیں
دیش میں اپنا کوئی ٹھور ٹھکانا رکھنا

ورنہ تم دھوپ کو باہوں میں نہ بھر پاؤگے
اپنے احساس کے آنگن کو کشادہ رکھنا

کسے معلوم کہ کس سمت سے پتھر آجائے
اپنی بھی زد سے پرے جسم کا شیشہ رکھنا

آئینہ روز دکھاتے رہے اوروں کو مگر
لیکن آیا نہ ہمیں اپنا ہی چہرا رکھنا

سانس لیتی ہیں کئی صدیاں مرے شعروں میں
مجھ کو آتا ہے روایت کا سلیقہ رکھنا

شہر کے لوگ جو بدنام ہیں ان میں تنہاؔ
نام اک اور جو رکھنا ہے تو اپنا رکھنا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages