Breaking

Post Top Ad

Thursday, July 23, 2020

Sabira Khatoon Shaan Taruf wa Ghazal

صابرہ خاتون شانؔؔ

        یوں ہی کوئی غزل نہیں ہوتی
ذہن و دل کا لہو بھی جلتا ہے
مذکورہ شعر سے صاف عیاں ہے کہ صابرہ خاتون شانؔ صاحبہ غزل کی مزاج داں ہیں اور اچھی طرح جانتی ہیں کہ سیروں خون جلانے پر ایک مصرعہ ترکی صورت پیدا ہوتی ہے۔ بہر حال ان کی غزلیہ شاعری میں جہاں نسوانی جذبات و محسوسات کی ایک شبنمی فضا استوار ہوئی ہے وہیں عہد حاضر کے سلگتے مسائل کی دھیمی دھیمی آنچ بھی دلوں کو گداختگی عطا کرتی ہے۔ 
صابر ہ خاتون صاحبہ ادبی منظر نامہ میں شانؔ کی شناخت رکھتی ہیں تعلیمی سند کے اعتبار سے یوم پیدائش ۱۷؍نومبر ۱۹۶۸ء؁ اہے اور وطن مالوف ہری گنج کٹیہار (بہار) آٹھویں جماعت سے شعروشاعری کا شوق رہا ہے۔ تعلیم واجبی ہونے کے باوجود مطالعہ نے ان میں صلابت فکری پیدا کی ہے۔ ان کی تخلیقات ۱۹۸۵ء؁ سے مختلف رسائل کی زینت بن رہی ہیں جن میں خرام، بیسویں صدی، محفل صنم، خاتون مشرق، پاکیزہ آنچل، پاکیزہ خاتون وغیرہ شامل ہیں۔ امور خانہ داری میں مصروفیت کے باوجود تخلیقی عمل جاری  ہے لیکن قدرے سست روی سے وہ اپنے شریک حیات چار بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ اپنے گھر جنت میں خوش ہیں۔ ان کی زیر نظر غزل آج کے انسان کی محرومی، غم وآلام اور مجرح جذبات کا نوحہ ہے جس میں زبان وبیان کی شگفتگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
رابطہ۔ معرفت پپو میڈیکل ہال۔ ہری گنج چوک۔ پوسٹ؍ ضلع کٹیہار۔ 854105(بہار)

غزل 
چہرے کو مرے  شگفتہ لکھ دو 
یوں بھی مرا حال خستہ لکھ دو

جذبات سے کیا مرا تعلق
شیشہ ہوں مجھے شکستہ لکھ دو

تم مری کتابِ زندگی میں
افکار و محن زیادہ لکھ دو

ہوتے ہی نہیں ہیں مندمل جب
ہر زخم وفا کو تازہ لکھ دو

جب شہر اجڑ گیا ہے دل کا 
بہتر ہے اسی کا نوحہ لکھ دو 

تم آج جوابِ خط میں ان کے 
ان کے ہی ستم کا قصہ لکھ دو

آئیں گی نہ راس مجھ کو خوشیاں
اس بات کو آزمودہ لکھ دو

اے شانؔ زمانہ پھر پڑھے گا 
لکھ دو غمِ دل کا نوحہ لکھ دو

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Pages